خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق سعودی قانونی حکام نے قانون کے آرٹیکل 169 سے پیراگراف (بی) کو حذف کردیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ ایک بالغ سنگل، طلاق یافتہ یا بیوہ عورت کو اس کے مرد سرپرست کے حوالے کردیا جائے گا۔
اس کے بجائے قانون میں ترمیم کرتے ہوئے کہا گیا کہ ایک بالغ عورت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس بات کا انتخاب کرے کہ وہ کہاں رہنا چاہتی ہے، عورت کا سرپرست اس کے بارے میں صرف اس وقت اطلاع کر سکتا ہے کہ جب اس کے پاس کوئی ثبوت ہو کہ مذکورہ خاتون کسی جرم کا ارتکاب کرنے والی ہے۔ گلف نیوز کے مطابق اس میں یہ بھی کہا گیا ہے اگر کسی خاتون کو جیل کی سزا سنائی جاتی ہے تو سزا کی مدت پوری ہونے کے بعد خاتون کو اس کے سرپرست کے حوالے نہیں کیا جائے گا۔
وکیل نائف الم مانسی نے مکہ المکرمہ اخبار سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خاندان اب اپنی ان بیٹیوں کے خلاف مقدمہ دائر نہیں کرسکتے ہیں جو تنہا رہنے کا انتخاب کرتے ہیں اور اب عدالتیں اس نوعیت کے مقدمات کو قبول نہیں کریں گی۔
سعودی میڈیا نے فروری 2019 میں پہلی مرتبہ اطلاع دی تھی کہ سعودی عرب میں اب اس بات کا مطالعہ کیا جا رہا ہے کہ اس کے مردوں کی سرپرستی کے نظام کا کس طرح غلط استعمال کیا جارہا ہے۔
انگریزی روزنامہ سعودی گیزٹ کے مطابق اس وقت سعودی سرکاری وکیل سعود المجبب نے کہا تھا کہ ان کا دفتر خواتین، بچوں یا والدین کو ان افراد سے تحفظ کے لیے تمام کوششیں کریں گے جو غیرمنصفانہ رویے سے سرپرستی کے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہیں۔
2019 میں ہی اگست کے مہینے میں سعودی عرب نے سعودی خواتین کو مرد سرپرست کی منظوری کے بغیر بیرون ملک سفر کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ یہ فیصلہ بڑے پیمانے پر اصلاحات کے باوجود خواتین کی جانب سے اپنے سرپرستوں سے بچنے کی کوششوں کے بعد عمل میں آیا ہے۔ سرکاری گزیٹ ام القرا میں شائع ہونے والے ایک حکومتی فیصلے میں کہا گیا کہ اب درخواست جمع کروانے والے کسی بھی سعودی شہری کو پاسپورٹ دیا جائے گا۔