تہران اسلام آباد سے کیوں ناراض ہے؟ دوریاں اور فاصلے کیوں بڑھ رہے ہیں؟ ناراضگی کی کیا وجوہات ہیں؟ آئیے اس بار ے میں کچھ جانکاری حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
حاصل کردہ ایک دستاویز کے مطابق تہران میں تعینات ایک پاکستانی سفارتی افسر نے اس سال چھ جون کو ایک ای میل کمیونیکیشن نمبر TNI-28میں ان نکات کا اظہار کیا ہے اور دو طرفہ معاملات میں تعطل کی وجوہات سے پاکستانی دفتر خارجہ کو مطلع کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ سفارتی افسران کے درمیان ایک ملاقات مئی کے مہینے میں ہوئی جس میں ان معاملات پر غور کیا گیا اور دونوں جانب سے فریقین نے اپنا مؤقف بھی پیش کیا۔ ایران کی جانب سے ’’سفاری‘‘ نام کے افسر نے اس میں شرکت کی تھی۔
ایرانی جانب سے کھل کر شکوہ کیا گیا کہ پاکستان کی جانب سے نہ تو سفارتی سطح پر انہیں کوئی سہولت اور تعاون مہیا کیا جاتا ہے اور نہ ہی جب ایران، پاکستان میں قید ایرانی شہریوں کے سلسلے میں کوئی معلومات اور رسائی کی درخواست کرتا ہے اس پر کوئی پیش رفت دکھائی دیتی ہے۔ جب کہ دوسری جانب پاکستانی سفارتی عملہ وزیر اعظم عمران خان کی اس پالیسی کو دہراتے دکھائی دیتا ہے کہ ایران میں قید 52 پاکستانی شہریوں کی رہائی ان کی اولین ترجیح ہے۔ ایران کا کہنا تھا کہ وہ اس سلسلے میں پاکستان کی جانب سے منصفانہ اور برابری کی سطح پر سلوک کی توقع رکھتا ہے۔
یہاں یہ بات واضح رہے کہ معمولی سمندری حدود کی خلاف ورزیوں پر ایران اپنے بائیس سے زائد ماہی گیروں اور کشتیوں کی بازیابی کے لئے ایک عرصے سے کوشاں ہے اور اس بارے ساٹھ سے زائد خطوط حکام کو لکھ چکا ہے۔ ایرانی حکام پاکستان کوسٹ گارڈ کے ہیڈکوارٹر کراچی میں اس سلسلے میں متعدد ملاقاتیں بھی کر چکے ہیں لیکن تمام تر یقین دہانیوں کے باوجود ایرانی شہریوں کو اب تک رہا نہیں کیا گیا ہے۔
تہران اور اسلام آباد میں جہاں سمندری قیدیوں کا معاملہ سرد جنگ کا باعث ہے وہیں پاکستانی کینو اور ایرانی سیب کی درآمد برآمد کو لے کر بھی دونوں ممالک کے تعلقات میں خلیج بڑھتی دکھائی دیتی ہے۔ تجارتی، سفارتی اور سرحدی معاملات میں دونوں ہی جانب سے کوئی خاطر خواہ پیش رفت دکھائی نہیں دے رہی اور دھیرے دھیرے دونوں دوست ممالک ایک دوسرے سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔
ایران کی جانب سے یہ شکایت بارہا کی گئی ہے کہ پاکستان میں موجود ان کے سفارت خانوں اور افسران کے ساتھ تعاون کا بہت بڑا فقدان ہے، اور یہ شکایت بھی کی گئی ہے کہ کوئٹہ کے قونصلیٹ کو گوادر پورٹ تک رسائی سے روکا گیا، جب کہ ایران نے ہمیشہ ہی پاکستانی حکام کو زاہدان میں چاہ بہار پورٹ تک متعدد بار وزٹ کے مواقع فراہم کیے ہیں۔
واضح رہے کہ صرف 170 کلومیٹر کے فاصلے پر تعمیر کردہ ایران کی چاہ بہار بندرگاہ اور پاکستان کی گوادر پورٹ پاکستان، چین، بھارت اور ایران چاروں ممالک کے لئے انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ایرانی چاہ بہار بندرگاہ سے چین کو تحفظات ہیں اور وہ اسے اپنی پاکستان انوسٹمنٹ گوادر کے لئے ایک چیلنج سمجھتا ہے۔ گوادر پورٹ کے مقابلے میں چاہ بہار کی بندرگاہ بحیرہ عرب میں واقع ہے اور عمان کے ایک انتہائی سٹریٹجک خلیج کے دہانے پر ہے۔ یہ بندرگاہ بحر ہند کا ایران کا گیٹ وے بھی ہے۔
اپنی سٹریٹجیک اہمیت کے باعث خطے کے دو ممالک انڈیا اور افغانستان بھی چاہ بہار سے مستفید ہو سکتے ہیں اور یہ بندرگاہ ان ممالک کی ایران کے ساتھ قربتوں اور تعاون کو مزید بڑھانے کا باعث بن سکتی ہے۔ ایران میں بھارتی سرمایہ کاری کی ایک بڑی وجہ یہی بندرگاہ کہی جا رہی ہے جس میں بھارت کے دیرینہ تجارتی مسائل حل پنہاں ہیں۔ یہ بات کسی سے چھپی نہیں ہے کہ افغانستان اور بھارت کا اقتصادی مفاد چاہ بہار بندرگاہ سے منسلک ہے اور اسے خطے میں ایک نیا گیم چینجر بھی قرار دیا جا رہا ہے۔
اُدھر 54 بلین ڈالر کی چینی سرمایہ کاری سے پاکستان میں سی پیک منصوبہ بھی چل رہا ہے۔ یہ منصوبہ چین کے ’ون بیلٹ ون روڈ‘ نامی ایک بڑے پروجیکٹ کا حصہ ہے اور یہ چین کو اچھی طرح پتہ ہے کہ گوادر کی یہ بندرگاہ بیجنگ کے لئے بحر ہند کے ذریعے عالمی منڈیوں تک رسائی کا ایک اہم ذریعہ ثابت ہو گی۔
اسلام آباداور بیجنگ میں بیٹھے ارباب اختیار، تہران، دلی اور کابل کے اس بڑھتے ہوئے رومان سے پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ افغانستان میں ایران اور بھارت کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے اسلام آباد کے لئے عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوا ہے جب کہ ایران کا مؤقف ہے کہ گوارد پورٹ ہو، سی پیک منصوبہ یا چاہ بہار سرمایہ کاری، یہ سب خطے میں ایک صحت مند مقابلے کی تجارتی فضا پیدا کرے گی جس کے خطے پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
اچنبھے کی بات یہ ہے کہ ان تمام نئی دوستی کی پینگوں اور روایتی دشمنیوں پر امریکہ نے اپنے بھارتی دوست سے کسی قسم کی کوئی شکایت نہیں کی ہے۔ کیا واشنگٹن کو اس نئے ایران، افغانستان اور بھارتی رومانس پر کوئی اعتراض نہیں؟ واضح رہے کہ امریکی حکام تو پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اگر اس کا کوئی اتحادی ایران کے ساتھ جائز اور قانونی تجارتی تعلقات رکھنا چاہتا ہے تو اسے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا طاقت کے توازن اور چین پر دباؤ برقرار رکھنے کے لئے امریکہ بہادر نے ابھی چپ سادھے رہنے کی حکمتِ عملی اپنائی ہوئی ہے؟
شہد سے میٹھی، ہمالیہ سے اونچی اور سمندر سے گہری چین کی دوستی ہو یا آئی ایم ایف، ایف اے ٹی ایف اور امریکی قرضوں تلے دبی پاکستانی تابعداری کی مجبوری، کشمیر پر نرم مؤقف، کلبھوشن کی واپسی، بھارت کے ساتھ سرحدوں پر تناؤ میں کمی کا معاملہ ہو یا پھر ایران افغانستان کے ساتھ مقابلے کی فضا، پاکستان ایک ایسے چکر ویو میں پھنس گیا ہے جہاں اسے آج کی دنیا میں زندہ رہنے کے لئے ہر کسی کو خوش رکھنے کی حکمتِ عملی اپنانی ہوگی۔ مٹی کی محبت میں اب تو، ہم آشفتہ سروں کو، آج کی دنیا میں وہ قرض بھی اتارنے ہوں گے جو واجب بھی نہیں ہیں۔