ٹرانس جینڈر شہزادی رائے بھی پیپلز پارٹی کی مخصوص نشست پر کراچی میونسپل کمیٹی کا حصہ بن گئی ہیں۔ کملا بھیل، سمترا منجیابی اور شہزادی رائے یہ تینوں معاشرے میں ان طبقات سے ہیں جنہیں لوگ اپنے ساتھ بٹھانا پسند نہیں کرتے۔ ان کے ساتھ کھانا پسند نہیں کرتے اور راہ چلتے مشکل میں کوئی ان کی مدد نہیں کرتا۔ تاہم سندھ کے بڑے ایوانوں میں ان کی نمائندگی متوسط طبقوں کے لئے امید کی کرن ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے سندھ میں ہونے والے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں دونوں ہندو خواتین کملا بھیل اور ستمرا منجیانی کو پارٹی کا ٹکٹ دیا اور دونوں کامیاب ہوئیں۔ ضلع کونسل تھرپارکر کے ایوان کی صدارت کملا بھیل کریں گی جبکہ سمترا منجیانی میونسپل کمیٹی مٹھی میں نائب چیئرمین کے طور پر خدمات سر انجام دیں گی۔
ٹرانس جینڈر شہزاری رائے کون ہے؟
کراچی میونسپل کارپوریشن میں پہلی خواجہ سرا شہزادی رائے مخصوص نشست پر خواجہ سرا کمیونٹی کی نمائندگی کریں گی۔ شہزادی رائے سیاست میں آنے سے پہلے پولیٹکل ایکٹیوسٹ کے طور پر خواجہ سراؤں کے بنیادی حقوق سے متعلق مسائل حکومتی نمائندؤں تک پہنچاتی رہی ہیں۔ شہزادی رائے کا کہنا ہے کہ لوکل باڈی ایکٹ میں خواجہ سرا کے حوالے سے ہونے والی ترمیم میں پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر کام کیا۔ پانچ سال کی انتھک محنت کے بعد آج خواجہ سرا لوکل باڈی ایکٹ کی وجہ سے میونسپل کارپویشن کا حصہ بن رہے ہیں۔ شہزادی رائے انٹرمیڈیٹ پاس ہے۔ شہزادی رائے پرعزم ہے کہ ان کی کمیونٹی میں جو بھی تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے ان کو وظائف دلوانے کے لیے کام کریں گی۔
شہزادی رائے کون سا کام سب سے پہلے کریں گے؟
2021 میں پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے والی شہزادی رائے کا کہنا ہے؛ 'میونسپل کارپوریشن کا رکن بننے کے بعد وہ سب سے پہلے کراچی کے پارکس اور تفریحی مقامات پر 'ویلکم بورڈز' لگوائیں گی جن پر لکھا ہو گا کہ بغیر کسی جنسی تفریق، نسل، طبقات اور مذہبی تفریق کے تمام لوگ داخل ہو سکتے ہیں۔
شہزادی رائے سے جب پوچھا گیا کہ ایسا کیوں کریں گی جبکہ خواجہ سرا کمیونٹی کے اور بھی بہت مسائل ہیں؟ تو شہزداری رائے نے بوجھل آواز میں کہا کہ خواجہ سراؤں کو عوامی پارکس میں جانے کی اجازات نہیں جو کہ انسانی حقوق اور آئین کے بھی خلاف ہے۔ اگر ہم چلے بھی جائیں تو عوام ہمیں تنگ کرتے ہیں کہ یہ آپ لوگوں کے لئے نہیں ہے۔ پارکس کے داخلی راستوں پر اگر لکھا ہو گا کہ خواجہ سرا بھی داخل ہو سکتے ہیں تو ہمیں کسی کو جواب نہیں دینا پڑے گا۔ کراچی کا موسم خوشگوار ہوتا ہے تو ہمارا بھی دل کرتا ہے کہ ہم بھی پارکس میں جا کر موسم سے لطف اندوز ہوں۔
سمترا منجیانی کی سیاسی جدوجہد کی کہانی
سمترا منجیانی میونسپل کمیٹی مٹھی کی وائس چئیرمین بننے والی پہلی شیڈول کاسٹ خاتون ہیں۔ میگھواڑ ذات کی سمترا میگھواڑ محلے کی رہائشی ہیں اور ضلع تھرپارکر میں پیپلز پارٹی خواتین ونگ کی صدر ہیں۔ ڈگری کالج مٹھی سے گریجویشن کی تعلیم حاصل کرنے والی سمترا نے سیاست کا آغاز پیپلز پارٹی میں شامل ہو کر 2008 میں کیا۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے پہلا عہدہ جنرل سیکریٹری وومن ونگ تھرپارکر کا ملا۔ 6 ماہ کے بعد پارٹی نے ضلع تھرپارکر کے وومن ونگ کی صدر بنا دیا اور آج تک اسی عہدے پر خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔ 2018 کے جنرل الیکشن میں سمترا منجیانی کو ضلع تھرپارکر سے مخصوص نشست کے لئے بھی نامزد کیا گیا تھا۔ سیاست کے ساتھ ساتھ سمترا منجیانی صوبائی ہیومن رائٹس کمیٹی کی ممبر بھی ہیں۔
کم عمری کی شادیوں کی روک تھام کے مشن پر گامزن
وائس چیئرمین میونسپل کمیٹی مٹھی سمترا منجیانی سے سوال کیا گیا کہ بڑے عہدے کے بعد عوام کی بھلائی کے لئے کیا سوچ رکھا ہے؟ سمترا نے کہا کہ پہلی بات یہ کہ یہاں بچیوں کی چھوٹی عمر میں شادیوں کی وجہ سے خود کشیوں میں اضافہ ہو رہا ہے جس کی روک تھام ان کا سب سے بڑا ایجنڈا ہے۔ تحصیل مٹھی میں بچیوں کی رضامندی کے بغیر چھوٹی عمر میں شادی کرا دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ آگے جانے والے گھروں میں اپنی ذمہ داریاں نہیں نبھا پاتیں اور کئی بچیاں خودکشی کر لیتی ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ حال ہی میں میں نے کچھ ایسے واقعات میں ملزمان کو سزا دلوائی ہے جنہوں نے قتل کو خودکشی کا نام دیا۔ سمترا منجیانی سے سوال پوچھا گیا کہ بچیوں کی کم عمری کی شادی کی روک تھام کے لئے کیا اقدام کریں گی تو سمترا نے بتایا کہ اس کا واحد حل تعلیم ہے، 70 سے 80 فیصد بچیوں کا سکول میں داخلہ کروانا میرا سب سے پہلا ایجنڈا ہے اور وہاں سکول میں انہیں ہینڈی کرافٹ اور دستکاری کا ہنر سکھانا ہے تا کہ اپنے گھر والوں پر بوجھ نہ بنیں بلکہ ان کی معاشی امداد بھی کر سکیں۔
پاکستان کے بڑے ایوانوں میں ہندوؤں کی نمائندگی کی بات کریں تو پاکستان پیپلز پارٹی کی ننگر پارکر سے دلت برداری سے تعلق رکھنی والی ہندو خاتون کرشنا کماری کو پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ میں جنرل نشست پر سینیٹر بنایا گیا تھا اور ضلع تھرپارکر میں ہی پہلی بار 2018 کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی جنرل نشست پر ڈاکٹر مہیش کمار ملانی پاکستان پیپلز پارٹی کی رکن منتخب ہوئی تھیں۔
کملا بھیل سیاست میں بینظیر بھٹو سے متاثر
کملا بھیل نے ضلع تھرپارکر سے 2009 میں پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے سیاست کا آغاز کیا۔ ان کے والد پیپلز پارٹی کے ماضی میں کونسلر بھی رہ چکے ہیں۔ 2016 کے بلدیاتی انتخابات میں پہلی بار پیپلز پارٹی کی ڈسٹرکٹ کونسل کی ممبر تھیں۔ تھرپارکر کے ڈگری کالج سے انہوں نے گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔ بھیل ذات سے تعلق رکھنے والی کملا میرپور خاص ڈویژن میں پیپلز پارٹی خواتین ونگ کی جنرل سیکرٹری ہیں۔
کملا بھیل کن کاموں کا ارادہ رکھتی ہیں؟
سیاست میں بینظیر بھٹو سے متاثر ہونے والی کملا اپنے ضلع تھرپارکر کی خواتین کی ترقی کے لئے پرعزم ہیں۔ کملا بھیل سے جب بات کی تو انہوں نے بتایا کہ پہلے میں ڈسٹرکٹ کونسل کی ممبر تھی۔ میں اپنی پارٹی کی اعلیٰ قیادت کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ انہوں نے اب مجھے ڈسٹرکٹ تھرپارکر کی وائس چیئرمین کا عہدہ دیا۔ ضلعی سطح پرعہدے ملنے کے بعد سب سے پہلے کیا کام کریں گی؟ اس سوال کے جواب میں کملا نے کہا کہ میں اپنے ضلع کی ینگ بچیوں کے لئے ٹیکنیکل اداروں کے قیام کے لئے کام کروں گی۔ بینظیر یوتھ پروگرام کو ضلع بھر میں متعارف کرواؤں گی تا کہ ضلع تھرپارکر کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں تربیتی ورکشاپ سے ہنر سیکھیں اور خاص کر انگلش زبان کی تعلیم کے ادارے بناؤں گی تا کہ روزگار کی تلاش میں جانے والے ہمارے علاقے کے نوجوان انگلش زبان میں مہارت نہ ہونے کی وجہ سے بے روزگار نہ رہ جائے۔
کملا بھیل نے بتایا کہ میں اپنے خاندان میں واحد تعلیم یافتہ خاتوں ہوں۔ میں چاہتی ہوں کہ ضلع تھرپارکر کا ہر بچہ پڑھنا لکھنا جانتا ہو۔ کملا تین بیٹیوں اور ایک بیٹے کی والدہ ہیں اور ان کے بچے سکول جاتے ہیں۔
کملا کا کہنا ہے کہ ان کے علاقے کی خواتین ہینڈی کرافٹ کے ہنر میں مہارت رکھتی ہیں۔ اپنے علاقے کی خواتین اور بچیوں کے روزگار کے لئے ہینڈی کرافٹ سینٹرز کے لئے پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت سے بات کر چکی ہیں۔