حزب اختلاف کا دعویٰ ہے کہ تحریک کے کم از کم 20 اراکین اسمبلی پہلے ہی رائے شماری کے دن فلور کراس کرنے کا وعدہ کر چکے ہیں۔ کچھ لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ وسطی یا شمالی پنجاب میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ یا سندھ یا جنوبی پنجاب میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر جیتنے کے امکانات کی وجہ سے ”متاثر” ہوئے ہیں۔ کچھ کی مٹھی بھی گرم کی گئی ہوگی۔ اگر اس دعوے میں نصف سچائی بھی ہوئی تو معرکے والے دن میدان حزب اختلاف کے ہاتھ رہے گا۔
حکومت کے اتحادیوں میں ق لیگ کے (5 ووٹ)، ایم کیو ایم (7 ووٹ)، بی اے پی (5 ووٹ)، جی ڈی اے (3 ووٹ)، آزاد (2 ووٹ)، شیخ رشید (1 ووٹ) اور جے ڈبلیو پی (1 ووٹ) شامل ہیں ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر حزب اختلاف نے تحریک انصاف کے اراکین کو توڑ کر اپنی گنتی پوری کرلی تو وہ خسارے میں رہیں گے۔ لہٰذا وہ سب اس حکومت کی شاخوں سے پرواز کرنے اور اگلی میں نشستیں حاصل کرنے کے لیے شرائط پر گفت و شنید کر رہے ہیں۔ ان حالات میں اگر سب کچھ منصوبہ بندی کے مطابق ہوا تو حزب اختلاف 200 سے زائد ووٹوں کی زبردست اکثریت سے عمران خان کا تختہ الٹ سکتی ہے۔
ٹھیک اسی وجہ سے عمران خان دو محاذوں پر لڑ رہے ہیں۔ اپنے غرور اور تکبر کی کڑوی گولی نگل کر ترغیبات کے ذریعے اتحادیوں کو ساتھ رکھنے کی تگ و دو میں ہیں۔ لیکن ان کی اصل توجہ اپنے ساتھیوں کو حزب اختلاف کی جانے سے روکنے پر ہے۔ یہ تاثر ارزاں کرنا مقصود ہے کہ اُن کا پایہ مضبوط ہے، وہ کہیں نہیں جارہے، اس لیے اُن کے حامی دلبرداشتہ نہ ہوں اور ان کے ساتھ ہی رہیں۔
عمران خان کی حکمت عملی رائے شماری کے دن اپنے اراکین قومی اسمبلی کو پارلیمنٹ میں آنے سے روکنا ہے۔ اور اگر وہ ان کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حزب اختلاف کے ساتھ مل کر اُن کے خلاف ووٹ دیتے ہیں تو اسپیکر قومی اسمبلی، اسد قیصر اُن کی تحریک انصاف کی رکنیت ختم کرکے ان کے ووٹ کینسل کر دیں۔ آئینی طور پر وہ انہیں اپنے خلاف ووٹ دینے سے نہیں روک سکتے اور اگر طے شدہ طریق کار کے مطابق چلا جائے تونااہلی کے عمل میں چار مہینے لگ سکتے ہیں (ایک ماہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس اور تین ماہ سپریم کورٹ میں اپیلوں میں)۔ لیکن اسپیکر آئینی طریق کارایک طرف رکھ کر عمران خان کو پچھلے قدموں پر جاتے ہوئے لڑنے کا موقع دے سکتے ہیں۔
حزب اختلاف یہ جانتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اسی وقت اتحادیوں سے مذاکرات کر رہی ہے کیونکہ انہیں سپیکرحزب اختلاف کے ساتھ اتحاد کرنے سے نہیں روک سکتے۔ ووٹنگ کا دن ہنگامہ خیز اور گھمبیر ہونے کا خدشہ موجود ہے۔
یہ صرف اس لیے ہوا ہے کہ اسٹبلشمنٹ نے یہ بتا دیا ہے کہ وہ اب عمران خان کی حمایت نہیں کر رہی، اور وہ ”غیر جانبدار” ہے۔ لیکن اگر عمران خان بچ جاتے ہیں تو اپوزیشن اس پر الزام عائد کرے گی کہ اس نے آخری لمحات میں اتحادیوں کو خان کے ساتھ جڑے رہنے کا اشارہ دے کر حکومت کی ڈوبتی نبضیں بحال کردیں۔ اور اگر عمران خان کی حکومت ختم ہوجاتی ہے تو پھر وہ اسٹبلشمنٹ کو نشانہ بنائیں گے کہ اس نے کچھ حقیقی یا فرضی وجوہات کی بنا پر ان کے خلاف سازش کی۔
لیکن کھیل ختم نہیں ہوتا جب تک حتمی سیٹی نہیں بج جاتی۔ اگر عمران خان کو ہٹا بھی دیا جاتا ہے تو حزب اختلاف کو اگلے مرحلے کے لیے مل کر طریق کار طے کرنا ہوگا۔ اسلام آباد میں اگلی حکومت کون بنے گا؟ یہ کب تک چلے گی؟ انتخابات، احتساب اور بجٹ قوانین میں کن ”اصلاحات” کی ضرورت ہوگی؟ مختلف صوبائی اسمبلیوں کی قسمت کا کیا فیصلہ کیا جائے گا، ان کی سربراہی کون کرے گا اور یہ کب تحلیل ہوں گی؟
اسٹبلشمنٹ کے اتحادیوں، جیسا کہ ق لیگ، ایم کیو ایم، جی ڈبلیو ڈی، بی اے پی وغیرہ کی مستقبل کے بندوبست میں کیا جگہ ہوگی؟ اگر ایسے نوک دار سوالات کا جلد جواب نہ تلاش کیا گیا تو تمام کاوش اکارت جانے اندیشہ موجود ہے۔ پھر اسٹبلشمنٹ قدم آگے بڑھا کر ان معاملات کا ”حل“ نکالے گی اور اس میں ہر کسی کا نقصان ہوجائے گا۔
اب ہمیں اسد عمر کی طرف سے اطلاع دی گئی ہے کہ عمران خان ووٹنگ کے دن اسلام آباد کے ڈی چوک پر قبضہ کرنے، پارلیمنٹ کا گھیراؤ کرنے اور تحریک انصاف کے منحرفین کو اس میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے اپنی یوتھیا بریگیڈ کو بلانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس کے ردعمل میں مولانا فضل الرحمان نے اپنے ”رضاکاروں“ کو حکم دیا ہے کہ وہ پارلیمنٹ لاجز میں جے یو آئی کے اراکین اسمبلی کو پولیس کے ہاتھوں ہراساں، اغوا یا گرفتار ہونے سے بچائیں۔ اگر پی پی پی کے ”جیالوں ” اور پی ایم ایل این کے حامیوں کو میدان میں اترنے کے لیے اکسایا جاتا ہے، تو پرتشدد جھڑپوں کی نوبت آجائے گی۔ سپیکر اسد قیصر اس انتظار میں ہیں کہ ایسی کوئی صورتحال پیدا ہو تاکہ وہ پارلیمنٹ کو غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر کے یوم حساب ٹال دیں۔
عمران خان کی دھمکیاں بھی خوب ہیں۔ گزشتہ نومبر سے جب اسٹبلشمنٹ اور ان کے درمیان تناؤ پیدا ہوا اور جب یہ بیانیہ تقویت پانے لگا کہ اسٹبلشمنٹ اپنی ساکھ بحال کرنے کی کوشش میں ہے، عمران خان نے اپنی روانگی کی حکمت عملی طے کرلی تھی۔ یہ مزاحمت کے پانچ ستونوں پر مبنی ہے۔ ایک، حزب اختلاف کو چوروں اور لٹیروں کے گروہ کے طور پر ہدف تنقید بنانا جاری رکھیں اور شور مچاتے رہیں کہ وہ حکومت میں کسی جگہ کے حقدار نہیں ہیں۔ن کی ذاتی توہین کر کے انہیں اکسائیں۔ دو، امریکہ مخالف، مغرب مخالف، بھارت مخالف جذبات کا مقبول عام بیانیہ ارزاں کریں، چاہے یہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کے مفادات کو شدید زک پہنچائے، تاکہ وہ کہہ سکیں کہ اُنہیں ہٹانے کے لیے عالمی سازش کی گئی ہے۔ تیسرا، موجودہ آرمی چیف کو برطرف کرنے اور اپنے آدمی کو مقرر کرنے کے اپنے ”ایٹمی” آپشن سے اسٹبلشمنٹ کو دھمکیاں دیں۔ چوتھا، قومی اسمبلی کے سپیکر کو ہدایت کریں کہ وہ اپوزیشن کی طرف سے انہیں پارلیمنٹ میں معزول کرنے کی کسی بھی کوشش میں رکاوٹ ڈالیں، قطع نظر اس کے کہ ایسا کرنا غیر قانونی ہو۔ پانچویں، آئینی طریقوں سے اپنی حکومت کو ہٹانے میں جسمانی اور پرتشدد طور پر رکاوٹ ڈالنے کے لیے اپنے نوجوانوں کو متحرک کریں۔ مختصریہ کہ عمران خان کی حکمت عملی یہ ہے کہ پرتشدد طریقوں سے برطرفی کی مزاحمت کی جائے اور فوج کو ایک بار پھر مداخلت پسند سیاست میں گھسیٹ لیا جائے۔ دوسرے لفظوں میں، اگرعمران خان حکومت نہیں ہوگی تو اُن کا ترجیحی متبادل ملک میں سیاسی افراتفری پھیلانا ہے۔کچھ لوگ اس جنونی سوچ کا موازنہ ڈونلڈ ٹرمپ کے ہتھکنڈوں سے کررہے ہیں۔
آئی ایس پی آر نے بھارت کی جانب سے ایک نامعلوم فلائنگ آبجیکٹ کی طرف اشارہ کیا ہے جو پاکستانی پنجاب کے شہر، میاں چنوں میں گر کر تباہ ہو گیا ہے۔ مغربی سرحد کے اس پار سے تحریک طالبان پاکستان، اسلامک اسٹیٹ اور بلوچ علیحدگی پسند پاکستانی شہریوں اور فوجیوں کو دہشت زدہ اور قتل کر رہے ہیں۔ داخلی خانہ جنگی کے سائے گہرے ہوتے جارہے ہیں۔ نوشتہ دیوار خوفناک ہے۔