فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق، جرمن پارلیمان میں بحث کے دوران ایک سوال کے جواب میں کہا گیا کہ وفاقی حکومت نے مساجد کی فنڈنگ کے لیے ان پر ٹیکس عائد کرنے کا ممکنہ حل تلاش کیا ہے۔
رپورٹ میں مقامی اخبار کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا گیا ہے کہ جرمنی کی 16 ریاستوں میں سے اکثریت میں چرچ ٹیکس بھی وصول کیا جا رہا ہے۔
واضح رہے کہ جرمنی کے طول و عرض میں مساجد کی بیرونی فنڈنگ کے حوالے سے مختلف طرح کے خدشات جنم لے رہے ہیں۔ اس وقت جرمنی میں قریباً 50 لاکھ مسلمان آباد ہیں جن میں سے بیش تر ترک اور عرب النسل ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جرمنی میں قریباً نو سو مساجد کے اماموں کی تنخواہ ترکش اسلامک یونین آف انسٹی ٹیوٹ فار ریلیجئن کے تحت ادا کی جاتی ہے۔
یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ یہ ادارہ ترک صدر رجب طیب اردگان کی حکومت کے زیرانتظام کام کر رہا ہے۔
مقامی اخبار والڈ اینڈ سونگڈگ کے ایک حالیہ سروے کے مطابق، متعدد ریاستوں نے اس تجویز کی حمایت کی ہے کہ جرمنی میں قائم مساجد کو اپنے اخراجات خود برداشت کرنے کے قابل ہونا چاہئے۔
ایک ریاست کے محکمہ داخلہ نے کہا ہے کہ وہ مساجد کے مالی اخراجات کو چرچوں کے حوالے سے رائج مالیاتی ماڈل کی طرح بنائے جانے کی حمایت کرتا ہے۔
واضح رہے کہ جرمنی میں آباد مسلمانوں کی اکثریت ترک النسل ہے جنہیں ساٹھ اور ستر کی دہائی میں مہمان مزدور کے طور پر جرمنی آنے کی دعوت دی گئی تھی۔
بعدازاں 2015 میں جرمن چانسلر اینجیلا مرکل نے عراق، شام اور افغانستان میں جنگوں کے باعث بے گھر ہونے والے 10 لاکھ سے زائد مسلمانوں کو جرمنی میں پناہ دی جس کے باعث ملک میں مسلمانوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوا ہے۔