اس حوالے سے ایک نوٹیفکیشن منظر عام پر آیا ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ جوائنٹ سٹاف ہیڈکوارٹرز اور سروسز ہیڈ کوارٹرز سے مشاورت کے بعد یہ رائے قائم کی گئی ہے کہ سرکاری افسران جن میں افواج پاکستان کے افسران و اہلکار بھی شامل ہیں، روپے کی قدر گرنے سے ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور کنزیومر انڈیکس کے اعشاریوں میں اضافے سے بلوں پر پڑنے والے اثرات سے متاثر ہو رہے ہیں۔ مالی سال 19-20 میں گریڈ 17 سے 20 ، یعنی برگیڈئیر رینک تک 5 فیصد خصوصی الاؤنس دیا گیا تھا جبکہ گریڈ 1سے 16 تک دس فیصد ایڈہاک ریلیف الاونس دیا گیا تھا۔ تاہم گریڈ 20 سے اوپر جنرل سٹاف کو کوئی الاونس نہیں دیا گیا۔
جبکہ ٹیکس سلیبز میں اضافے کے بعد فوجی افسران اور جوانوں کو زیادہ ٹیکس بھی دینا پڑتا ہے جس سے انکی روز مرہ کی زندگی گزرانے کے اسباب مزید مسدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ اسی تناظر میں جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے چئیرمین کی منظوری سے یہ سمری وزارت دفاع کو بھیجی جا رہی ہے تا کہ یہ معاملہ وزارت خزانہ کے ساتھ اٹھایا جائے اور فوج کی تنخواہوں پر نظر ثانی کی جائے۔
سمری میں کہا گیا ہے کہ یہ اضافہ بنیادی تنخواہ پر سال 2016 تا 2019 دیئے جانے والے ایڈہاک ریلیف الاؤنس کو ضم کر کے بنیادی تنخواہوں میں ضم کیا جائے۔ اس حوالے سے بتایا گیا ہے کہ اس کے بعد تنخواہوں میں 20 فیصد اضافہ ہوگا جبکہ قومی خزانے کو یہ اضافہ 63 ارب سے زائد میں پڑے گا۔
یاد رہے کہ عالمی وبا کے دوران حکومت پاکستان نے کرونا ریلیف فنڈ کے لئے سرکاری افسران کی تنخواہوں کی کٹوتی بھی کی تھی جبکہ سندھ حکومت کے وزرا نے گذشتہ ماہ ، اگلے دو ماہ کے لئے تنخواہ نہ لینے کا فیصلہ کیا تھا۔