لیکن ان امیدوں کو دھچکہ اس وقت لگا جب گذشتہ ہفتے ووہان میں ایک معمر شخص میں کرونا وائرس کی تشخیص ہوئی۔ یہ ایسا شخص تھا جو کہ کرونا وائرس سے متاثر ہو کر صحت یاب ہو چکا تھا۔ پہلے تو صرف ایک ہی شخص کی نشاندہی ہوئی لیکن جب انسداد کرونا مہم کےعالمی اصولوں کے تحت اس شخص سے رابطہ میں رہنے والے افراد کو ٹریس کرکے انکے ٹیسٹ کئے گئے تو اسکی بیوی سمیت 6 افراد میں وائرس کی نشاندہی ہوئی جس کے بعد وہ رہائشی عمارت جہاں یہ شخص سکونت پذیر تھا اسے سیل کرتے ہوئے کلسٹر ٹیسٹنگ کی جا رہی تھی۔
لیکن اب یہ خبریں سامنے آئیں ہیں کہ چینی حکومت اس ڈھیٹ کرونا وائرس کے دوبارہ سے سر اٹھانے کی وجہ سے بھنا کر رہ گئی ہے۔ کیونکہ وہان میں 3 اپریل کے بعد سے کرونا کا کوئی نیا کیس سامنے نہیں آیا تھا۔ جس کے بعد اعلیٰ سطحی حکومتی عہدہداروں نے ووہان کے ایک ایک شہری کا ٹیسٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس حوالے سے مقامی انتظامیہ کو ایک مراسلہ جاری کیا گیا ہے جس میں ان سے ٹیسٹنگ کے اس بڑے منصوبے کے لئے ان کی تیاری اور سفارشات سے متعلق منصوبہ بندی دستاویزات مانگ لی گئی ہیں۔
چینی شہر وہان کی آبادی ایک کروڑ دس لاکھ سے زائد ہے۔ اور مذکورہ پلان کو دس دنوں میں مکمل کئے جانا ہے۔ بین الاقوامی میڈیا کے مطابق اس کے حوالے سے ایک اندرون دفتر دستاویز مقامی انتظامیہ کو بھیجا گیا ہے جس میں ان سے اس پلان پر عملدرآمد کے لئے ان کا منصوبہ طلب کیا گیا ہے۔ اس منصوبے کا نام The ten day battle رکھا گیا ہے۔
اس حساب سے روزانہ تقریباً گیارہ لاکھ ٹیسٹ کرنا درکار ہوں گے۔ ذرائع کے مطابق ان ٹیسٹس میں طبی عملے، عمر رسیدہ افراد اور غریب افراد جو کہ ایسی جگہ پر رہتے ہیں جہاں سماجی فاصلہ رکھنا ممکن نہیں ان کو فوقیت دی جائے گی۔
ماہرین نے اس حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ اتنے بڑے پیمانے اور کم وقت میں کرونا وائرس کی قابل اعتماد ٹیسٹنگ ممکن نہیں اور یہ محض سیاسی دھاک بیٹھانے کی کوشش ہوگی۔ انکا کہنا تھا کہ فرض کیجئے یہ ہو بھی جائے تب بھی اس کے نتائج پر کسی بھی طبی ماہر کو مکمل یقین نہیں ہوگا کیونکہ یہ ایک ہڑبونگ کا منظر ہوگا جس میں غلطیوں کی بہت گنجائش پیدا ہوجاتی ہے۔