صدر اشرف غنی نے یہ اعلان قوم سے خطاب کرتے ہوئے کیا اور کہا کہ طالبان نے جنگ بندی سے انکار کرتے ہوئے اپنے حملے جاری رکھے ہوئے ہیں لہٰذا ب مزید صبر نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ ’طالبان لڑنے اور مارنے سے باز نہیں آ رہے ہیں۔
افغان صدر کے سرکاری ٹویٹر اکاؤنٹ سے جاری کردہ وڈیو بیان میں اشرف غنی نے کہا کہ ’میں ملک کی سکیورٹی فوسرز کو حکم دیتا ہوں کہ وہ دشمن کے خلاف اپنا دفاع کرنے کی بجائے ان پر حملہ کریں۔‘
افغان صدر کی جانب سے یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب افغانستان کے دارالحکومت کابل میں دہشت گرد حملوں میں متعدد عام شہری مارے گئے ہیں۔
کابل سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق منگل کو دارالحکومت میں ایک مسلح حملہ آور کی جانب سے زچہ بچہ کے اسپتال پر حملے کے نتیجے میں 14 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں نرسز اور نومولود بچے بھی شامل ہیں۔
دوسری طرف صوبہ ننگرہار میں ایک جنازے میں خودکش دھماکے کے نتیجے میں درجنوں افراد بھی مارے گئے۔
افغان صدر اشرف غنی نے کہا کہ ’آج ہم نے طالبان اور داعش کی جانب سے کابل کے اسپتال اور ننگرہار میں جنازے کے ساتھ ساتھ ملک میں دیگر حملے کیے گئے ہیں۔‘
اس سے قبل پیر کو بھی کابل میں ہی 90 منٹ سے بھی کم وقت میں چار دھماکے کیے گئے تھے۔
تاہم افغان طالبان نے آج ملک میں ہونے والے ان حملوں سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔
ادھر سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ ٹویٹر پر آج افغانستان میں ہونے والے حملوں کی سخت الفاظ مزمت کی جا رہی ہے اور ان شیر خوار بچوں اور خواتین کی تصوریں شیئر کی جارہی ہیں جو دھماکوں میں مارے گئے ہیں۔
خیال رہے کہ فروری میں افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان ہونے والے امن معاہدے کے بعد سے افغانستان میں تشدد کے واقعات میں کمی کی بجائے مسلسل اضافہ دیکھا گیا ہے۔ تاہم، صدر اشرف غنی کی طرف سے شدت پسند تنظیموں کے خلاف کارروائیوں کے اعلان سے بظاہر لگتا ہے کہ ملک میں پھر سے ایک بھر پور جنگ کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔
فریقین کی طرف سے ایک دوسرے پر حملوں کا سلسلہ تو پہلے سے جاری تھا لیکن اس دوران قیدیوں کا تبادلہ بھی ہو رہا تھا جس سے کسی حد تک ایک بھرپور جنگ کی فضا نہیں تھی۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اقوام متحدہ کے ادارے یونامہ نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ گذشتہ چار مہینوں کے دوران افغانستان میں تشدد کے واقعات میں پانچ سے زائد عام شہری مارے گئے ہیں۔