اسلام آباد میں اجلاس کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے شیخ رشید نے کہا کہ کابینہ کی ای سی ایل کمیٹی کا اجلاس ہوا اور شہباز شریف کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کے لیے وفاقی کابینہ کو سفارش کردی گئی ہے جبکہ آرٹیکل 25 بھی یہ کہتا ہے کہ جب باقی ملزم ای سی ایل پر ہوں تو کسی ایک ملزم سے خصوصی سلوک نہیں ہوسکتا ہے، عدالت کا ایک فیصلہ بلیک لسٹ کے حوالے سے ہے لیکن شہباز شریف کا نام بلیک لسٹ پر نہیں ہے بلکہ 7 مئی 2021 کے آرڈر پر ہیں۔
شیخ رشید نے مزید کہا کہ 3 چیزیں ہوتی ہیں، نمبر ایک بلیک لسٹ جو پاسپورٹ آفس ڈالتا ہے، دوسرا پی این آئی ایل جو ایف آئی اے ڈالتا ہے اور تیسرا کابینہ کی تین رکنی کمیٹی کو فیصلہ کرکے کابینہ کو بھیجنا ہوتا ہے۔ تین رکنی کمیٹی نے شہباز شریف کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی درخواست کو درست تصور کیا اور متفقہ طور پر کابینہ کو سفارش کردی ہے کہ شہباز شریف کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا جائے۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ یہ خود نواز شریف کے ضمانتی ہیں اور ان کی جانب سے ہمارے پاس کوئی درخواست نہیں آئی تاہم شہباز شریف 15 دن کے اندر ہمیں نظرثانی کی درخواست دے سکتے ہیں۔ وزارت داخلہ کو 90 روز میں ان کی درخواست کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے اور وہاں شہباز شریف خود بھی پیش ہونا چاہیں تو پیش ہوسکتے ہیں البتہ ہمارے پاس کوئی طبی مسئلے کی بات نہیں کی گئی جبکہ پہلا کیسز طبی بنیاد پر تھا۔
شیخ رشید نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ کمیٹی کے تینوں اراکین نے اتفاق رائے سے ویڈیو لنک کے ذریعے شہباز شریف کا نام ای سی ایل پر ڈالنے کی نیب کی درخواست منظور کی اور کابینہ کو سفارش کی ہے، شہباز شریف کے پاس نظر ثانی کا حق ہے۔
شیخ رشید کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب مرزا شہزاد اکبر نے کہا کہ نیب کی جانب سے کیس میں شہباز شریف کے علاوہ دو اور لوگوں کا نام بھی فائل ہوا ہے۔ شہباز شریف کا نام کابینہ کی ذیلی کمیٹی نے اس لیے سفارش کیا ہے کہ شہباز شریف کا مقدمہ لاہور کی احتساب عدالت میں چل رہا ہے جو نہ صرف ٹی ٹیز اور منی لانڈرنگ کا کیس ہے بلکہ ان کے 3 یا 4 مزید کیسز بھی ہیں، اور وہ رمضان شوگر ملز، چوہدری شوگر مل اور ایف آئی اے کے منی لانڈرنگ کے کیسز میں ملزم ہیں۔ یہ مختلف کیسز عدالتوں میں چل رہے ہیں اور اب اگر شہباز شریف کو باہر جانے دیا جاتا ہے تو یہ تمام کیسز التوا کا شکار ہوجاتے ہیں اور دیگر ملزمان کی حق تلفی ہوتی