گذشتہ ڈیڑھ دہائی سے مفتی منیب الرحمٰن کو خوشی کے اس موقع کو متنازع بنانے کا الزام دیا جاتا رہا لیکن اس بار تو مفتی منیب رویت ہلال کمیٹی کے سربراہ نہیں تھے۔ پھر کیا ہوا؟ غروب آفتاب کے بعد سے مسلسل چاند نکلنے کی "افواہوں" کا سلسلہ جاری تھا۔ ساتھ میں سوشل میڈیا پر میمز نے رونق لگا رکھی تھی۔ کسی صاحب نے لکھا کہ 30واں روزہ بھی بیوی کی طرح ہوتا ہے، رکھنے کو دل نہیں کرتا اور چھوڑنے کا جگرا نہیں۔ اس لئے انسان چاہتا ہے کہ اسے چھوڑنے کا گناہ کوئی اپنے سر لے۔
قریب گیارہ بجے تک وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری اپنی بھولی صورت اور "شر انگیز" سیرت کے ساتھ سوشل میڈیا پر چھائے رہے۔ قطع نظر اس کے کہ وہ اپنی مرضی کا "چن چڑھانے" میں ناکام رہے لیکن ان کی باتیں ترقی پسندوں کو بہت بھاتی ہیں۔ اس بار مفتی منیب بطور بلی کے بکرے کے موجود نہیں تھے تو فواد چودھری نے بغیر نام لیے باؤنسر مارا کہ جو سعودی عرب کے ساتھ عید منانا چاہتے ہیں وہ کھل کر بات کریں، جھوٹی شہادتوں کی کیا ضرورت ہے؟
خیر ساڑھے دس بجے کہ قریب ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ رویت ہلال کے متعلق شہادتوں کی جگہ چہ میگوئیوں نے لے لی کیونکہ گذشتہ برسوں میں چاند نظر آنے یا نہ آنے کی بات سنتے آئے ہیں لیکن اس بار "ذرائع" نے چاند دیکھ لیا تھا۔ ایک معروف ٹوئٹر سٹار خاتون صحافی نے موقع دیکھ کر تاک کر نشانہ لیا اور ٹوئیٹ کی کہ "چاند کا آر ٹی ایس بٹھا دیا گیا ہے۔ رزلٹ روک لیا گیا ہے۔ اور دھاندلی جاری ہے: ذرائع"
دوسری طرف شمالی وزیرستان میں 29 رمضان کو عید منانے کا اعلان کرنے اور رویت کی شہادت دینے والے سات افراد کے خلاف قانون حرکت میں آ جانے کی خبریں بھی چل رہی تھیں۔ چونکہ وطن عزیز میں کاروبار زندگی اور امور سلطنت چلانے کے لئے "جھوٹی گواہی" کی خاص اہمیت ہے اس لئے جھوٹی شہادت کے خلاف کوئی قانون موجود نہیں لہٰذا لاؤڈ سپیکر ایکٹ اور احترام رمضان کی دفعات کو کام میں لاتے ہوئے "ملزمان" کے خلاف مقدمہ رج کیا گیا۔
مختصر یہ کہ ریاست نے کہیں تو اپنی رٹ منوائی اور ساتھ یہ خاموش پیغام بھی دیا کہ جھوٹ بولو بھی تو ایسے کہ کوئی تو یقین تو کرے۔ اب بھی قانون حرکت میں نہ آیا تو ایسے جلد باز 15 رمضان ہی کو "چن چڑھا" بیٹھیں گے۔
بحرحال آپ سب کو عید کا چاند مبارک۔ مبارک باد کے سلسلہ میں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری کو ٹیگ کرنا مت بھولیں اور یاد رہے کہ اس عید پر پنجاب کے عوام کو مشیر اطلاعات محترمہ فردوس عاشق اعوان کی جانب سے جپھیاں اور پپیاں لینے کی اجازت نہیں ہے۔ ایسی صورت میں کسی ایسی دفع کے تحت بھی گرفتاری عمل میں لائی جا سکتی ہے کہ آپ بتاتے اور ہم لکھتے ہوئے شرمائیں۔