ذرائع کے مطابق وفاقی دارالحکومت کی پولیس لائنز کے گیسٹ ہاؤس میں بطور مہمان رکنے والے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان سے صدر مملکت عارف علوی نے ملاقات کی۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات تین گھنٹے سے زائد وقت تک جاری رہی۔
ذرائع نے بتایا کہ صدر مملکت نے ملاقات کے دوران عمران خان کو ان کی گرفتاری کے بعد ملک میں پرتشدد واقعات بارے آگاہ کیا جس پر چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا گیا۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ عارف علوی نے عمران خان کو سینئر قائدین کی گرفتاری کے حوالے سے بھی آگاہ کیا جبکہ ملاقات میں پی ٹی آئی کی آئندہ کی حکمت عملی پر بھی تفصیلی بات چیت ہوئی۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ عمران خان آج ہائیکورٹ میں پیش ہونے کے حوالے سے جبکہ آج مزید کسی کیس میں ممکنہ گرفتاری پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ کسی بھی کیس میں آج گرفتاری سے بچنے کیلئے بھی پلان مرتب کیا گیا۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ ملاقات میں سابق وفاقی وزیر شبلی فراز، وزیراعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید اور عمران خان کی وکلاء ٹیم بھی موجود تھی۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے گزشہ روز القادر ٹرسٹ کیس میں قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے عمران خان کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے انہیں آج اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کا حکم دیا تھا۔
عدالت عظمیٰ نے عمران خان کو رہا کر کے انہیں آج رات کے لیے پولیس لائنز گیسٹ ہاؤس میں بطور مہمان رکھنے کا حکم دیا تھا۔
گزشتہ روز صدر مملکت عارف علوی نے وزیراعظم شہباز شریف کو خط لکھ کر عمران خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے میں گرفتار کیے جانے کے انداز پر افسوس کا اظہار کیا تھا۔
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے وزیراعظم شہباز شریف کو عمران خان کی گرفتاری اور اس کے بعد ملک میں پیدا شدہ صورتحال سے متعلق خط لکھا ہے جس میں انہیں سابق وزیراعظم کی گرفتاری کے طریقہ کار اور اس کے بعد ہونے والے پرتشدد احتجاج پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ وزیراعظم آئین اور رولز آف بزنس 1973 کے تحت مجھے ملک کی موجودہ صورتحال سے آگاہ رکھیں۔
صدر علوی نے اپنے خط میں وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں آپ کی توجہ عمران خان کی گرفتاری کے طریقہ کار اور نتائج کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں۔ ایک سابق وزیراعظم کے ساتھ جو بدسلوکی دکھائی گئی ہے میں اور پاکستانی عوام اس واقعے کی ویڈیو دیکھ کر حیران رہ گئے۔ عمران خان ایک ایسی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں جس کو عوام کی بڑی تعداد کی حمایت حاصل ہے۔
صدر پاکستان نے مزید کہا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں قانون نافذ کرنے والے ادارے دفتر میں زبردستی داخل ہوئے۔ اس وقت وہاں عمران خان کی بائیو میٹرک کا عمل جاری تھا۔ جس انداز میں گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے اس سے عالمی برادری میں پاکستان کا تاثر داغ دار ہوا اور ملک کے دشمنوں کو پاکستان کا مذاق اڑانے کا موقع دیا گیا۔
انہوں نے خط میں لکھا ہے کہ پاکستان کو شہریوں کے حقوق پامال کرنے والے ملک کے طور پر پیش کرنے کا موقع دیا گیا، اس قسم کا واقعہ کسی کے ساتھ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ ایسے مذموم اور غیر ضروری واقعات سے پہلے سے بگڑتی معیشت بری طرح متاثر ہوئی اور سماج میں تقسیم مزید بڑھ گئی ہے۔
صدر نے کہا ہے کہ عمران خان کے حامیوں کی بڑی تعداد ان کی گرفتاری کے ایسے مناظر دیکھ کر جذباتی ہوئی۔ عوام کو احتجاج کرنے کا حق ہے لیکن انہیں پُر امن اور قانون کے دائرے میں رہنا چاہیے تھا۔ دل دہلا دینے والے، اندوہناک اور افسوسناک واقعات اور جانوں کے ضیاع پر سب پریشان ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ میں عوامی اثاثوں کو پہنچنے والے نقصان اور شرپسندوں کے غیر قانونی اقدامات پر پریشان ہوں۔ آئین اور قانون کا محافظ ہونے کے ناطے میں ایسے واقعات کی مذمت کرتا ہوں، میرا ملک ایک مشکل دور سے گزر رہا ہے، وقت ہے کہ تحمل کا مظاہرہ کریں اور اپنی تقدیر کو بچائیں۔
صدر مملکت نے وزیراعظم کو مشورہ دیا ہے کہ تیزی سے تقسیم ہوتی سیاست کے درجہ حرارت کو کم کر کے مستحکم کیا جانا چاہیے اور ہیجانی ردعمل کی بجائے سیاسی درجہ حرارت کو کم کرتے ہوئے استحکام لایا جانا چاہیے۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ عمران خان کے آئینی حقوق پامال نہ ہوں اور ان کی جان کومکمل تحفظ حاصل ہو۔
صدر علوی نے اپنے خط میں یہ بھی کہا ہے کہ وزیراعظم آئین اور رولز آف بزنس 1973 کے تحت مجھے ملک کی موجودہ صورتحال سے آگاہ رکھیں۔