جب اکتوبر کے مہینے میں یہ رضاکار تربیت کی غرض سے پشاور میں باقائدہ ضلعی انتظامیہ سے اجازت نامہ لے کے اکٹھے ہوئے تو وزیراطلاعات خیبر پختونخوا شوکت یوسفزئی نے فرمایا کہ "یہ کوئی بنانا رپبلک نہیں، تحفظ دینا اور امن و امان قائم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، لیکن یہ ڈنڈا بردار غیر سیاسی جتھہ اب ریاست کی رٹ چیلنج کر رہا ہے اور عوام میں خوف وہراس پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے۔"
لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کو لایا ہی اس لیے گیا ہے کہ انتشار نہ بنے اور نہ پھیلے، جہاں بھی بہت زیادہ لوگ اکٹھے ہو جائیں وہاں انتشار کا خطرہ ہوتا ہے اور اس امکان کو مدِنظر رکھتے ہوئے ترقی یافتہ ممالک میں ہر بڑی تقریب یا میلے میں سکیورٹی کمپنی کے گارڈ موجود ہوتے ہیں۔ اس قسم کی سکیورٹی کمپنی کو Crowd Management Company کہا جاتا ہے۔
برطانیہ میں تعلیم کے دوران میں نے بھی ایسی ہی ایک کمپنی میں کام کیا۔ ایک لاکھ کے مجمع کی ہم صرف 200 سے 300 لوگ مینیجمنٹ کرتے تھے بغیر کسی ہتھیار کے، انصارالاسلام کے لوگ بھی یہی کام کر رہے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ انہوں نے پینٹ شرٹ کے بجائے خاکی شلوار قمیض پہن رکھا ہے اور ان کا حلیہ سادہ ہے۔ جو ہاکی انہوں نے ہاتھ میں پکڑ رکھی ہے اس کو میں جائز اس لئے سمجھتا ہوں کہ ہم خود ہی عام گفتگو میں اس بات کا اقرار کرتے نہیں تھکتے کہ ہم ڈنڈے کی زبان سمجھنے والی قوم ہیں۔
میرا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ میں حیران ہوں۔ میں حیران ہوں کہ بظاہر جن مذہبی جماعتوں کو ہم پسماندہ سمجھتے ہیں وہ حقیقت میں اپنے انداز میں سہی ہیں مگر جدید نہیں۔ میرے جیسے دوست جو پینٹ شرٹ پہننے کے عادی ہیں شاید ان کے حلیے کو دیکھ کے گھبرا جائیں لیکن وہ جو کام مفت میں یعنی رضاکارانہ طور پہ کر رہے ہیں وہ انتہائی قیمتی کام ہے۔
آپ نے یہ تو سنا ہو گا کہ رضاکاروں نے خواتین رپوٹرز کو دھرنے کے اندر داخل ہونے سے روکا لیکن یہ نہیں سنا ہو گا کہ کسی رپوٹر کے ساتھ کسی نے بھی بدتمیزی کی اور نہ ہی آپ یہ سنیں گے۔ وہ تو محض اپنی ڈیوٹی کر رہے ہیں اور جب اوپر سے اجازت مل گئی تو انہوں نے خواتین رپوٹرز کو جانے دیا۔ اگر کوئی بدتمیزی کی رپورٹ آئی تو آپ یہ بھی دیکھیں گے کہ ان کا انجام کیا ہوتا ہے۔
بہرحال اس بات سے قطع نظر کہ جمیعت علمائے اسلام کا عورتوں کو سیاست میں حصہ محدود رکھنا جائز ہے یا ناجائز کم از کم یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اگر کوئی عورت وہاں چلی بھی جائے تو وہ محفوظ ضرور ہو گی۔ شفا یوسفزئی جو کہ ہم ٹی وی پر شو بھی کرتی ہیں اور میری انتہائی پسندیدہ اینکرز میں سے ہیں، نے افسردہ انداز میں بیان کیا کہ جب وہ دھرنے کی کوریج کے لیے گئیں تو وہاں سب لوگ ان کو ایسے دیکھ رہے تھے جیسے وہ کوئی اور مخلوق ہوں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ شفا یوسفزئی خود بھی پٹھان ہیں اور اچھی طرح جانتی ہیں کہ خیبر پختونخوا میں کافی ماڈرن خواتین بھی ہلکا پھلکا پردہ کرتی ہیں تو پھر یہ تو ایک مذہبی پٹھان لوگوں کا مجمع ہے۔ دوسری بات یہ کہ اس دھرنے کے شرکا صرف مرد ہیں تو ایسی محفل میں جب عورت اچانک سے نمودار ہو جائے تو لوگ اسے دیکھیں گے۔ تصوّر کیجیے کہ ایک مذہبی سیاسی پارٹی کی عورتوں کی محفل ہو اور وہاں ایک آدمی کیمرہ لے کر اچانک سے نمودار ہو جائے تو کیا وہ خواتین اس کو اسی طرح حیرانگی سے نہیں دیکھیں گی جس حیرانگی سے شفا یوسفزئی کو دھرنے کے مرد شرکا نے دیکھا ہو گا؟
ان رضاکاروں کی دیکھا دیکھی حکومتِ پاکستان کو ایسی کمپنیوں کو پاکستان میں متعارف کرانا چاہیے۔ لوگوں کو ایک جگہ پر امن رکھنے کے لئے بھاری بھرکم دستوں کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ چند سو تربیت یافتہ اہلکاروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ بندوق کا محض نظر آنا بھی لوگوں میں خوف طاری کر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برطانیہ میں پولیس کے پاس عام طور پر بندوق نہیں ہوتی۔ حکومت اگر تھوڑی سی سمجھداری کا مظاہرہ کرے تو رزق کے ذرائع بنانا ناممکن نہیں۔ حکومت کو دل بڑا کر کے اپنی خوشی سے ان رضاکاروں کو بغیر کسی غرض کے محض شکریہ یا شاباش کے طور پہ تھوڑی بہت اُجرت دینی چاہیے۔
ایک تو لکھنا بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ پہلے غدار، جانبدار، بکاؤ مال، لبرل (طنز کے طور پہ) اور اس جیسے کئی القاب سے صرف سیاستدانوں کو نوازا جاتا تھا اور اب یہ وقت آ گیا ہے کہ مجھ جیسے ناچیز کو جسے لکھتے ہوئے محض ایک سال سے زیادہ ہوا ہے کو اپنے ہی وہ دوست جن کے ساتھ بچپن گزرا چھوٹے چھوٹے اختلافات پر ان القابات سے بے جھجک نوازنے لگے ہیں۔ مجھے یہ خدشہ ہے کہ انصارالاسلام کے رضاکاروں کی تعریف کرنے پر بھی مجھے ایک آدھ سے کچھ نہ کچھ سننا پڑے گا شاید۔ بہرحال میں اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہوں کہ ہم مسلمانوں کو بدگمانی سے بچائے کیونکہ بدگمانی معاشرے میں نفرت اور افراتفری پیدا کرتی ہے اور کچھ نہیں۔
میں ان رضاکاروں کو سلام پیش کرنے میں بلکل بھی نہیں ہچکچاؤں گا کیونکہ جب بھی میں اس 22 کروڑ عوام میں لوگوں کو اپنے بل بوتے پہ کچھ نمایاں کرتے دیکھتا ہوں تو دل باغ باغ ہو جاتا ہے اور دل میں یہ اُمید پیدا ہو جاتی ہے کہ ایک دن ضرور ہم ایک پُرامن اور محبت کرنے والی قوم بن جائیں گے، انشااللہ!
ازراہ تفنن