بابر ستار آپ ٹوئنٹی ٹوئنٹی میچ کی طرح دلائل نمٹائیں، جسٹس بندیال

12:38 PM, 12 Nov, 2019

اسد علی طور
مُنیر اے ملک ایڈووکیٹ کے مُقابلے میں نسبتاً نوجوان قانون دان بابر ستار نے آج دوسرے روز بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی نمائندگی کرتے ہوئے ٹیکس امور پر فُل کورٹ کے سامنے دلائل دیے۔ بابر ستار کا کہنا تھا کہ صدر کے سامنے نہ تو ایف بی آر اور نہ ہی سٹیٹ بینک کی کوئی رپورٹ تھی اور نہ ہی انہوں نے ایسی کوئی رپورٹ طلب کی اپنا ذہن بنانے کے لئے۔ جسٹس عُمر عطا بندیال نے اِس موقع پر ریمارکس دیے کہ کوڈ آف کنڈکٹ جج کی طرف سے کسی خاص قانون کی خلاف ورزی کا نہیں کہتا بلکہ یہ اِس لئے بنایا گیا کہ یہ پورے ادارے کی عزت کا معاملہ ہے اور کسی جج کی وجہ سے پورے ادارے کو شرمندگی نہ ہو، جس پر بابر ستار نے جواب دیا کہ کوڈ آف کنڈکٹ کہتا ہے کہ جج کی ذات کسی بھی قانون کی خلاف ورزی سے پاک رہنی چاہیے ورنہ تو کوئی بھی شخص اُٹھے، جج پر الزام لگا دے اور فیصلہ ہو جائے کہ جج پر کیوں کہ الزام لگ گیا ہے تو اِس کو ہٹا دیا جائے۔



یہ بھی پڑھیے: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سازش کا حصہ بننے والے وزیراعظم کا حال ریاض حنیف راہی والا ہوگا







اس موقع پر جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے وکیل بابر ستار فُل کورٹ کے سربراہ جسٹس عُمر عطا بندیال میں دلچسپ نوک جھونک ہوئی۔ جسٹس عُمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ کل بھی آپ نے ایک دلیل دی جو مُنیر اے ملک ایڈووکیٹ کے دلائل سے مُتضاد تھی۔ بابر ستار نے جواب دیا کہ وہ اپنے کل والے نُکتے کی وضاحت کر دیتے ہیں۔ جسٹس عُمر عطا بندیال نے کہا کہ نہیں آپ اب رہنے دیں۔ بابر ستار نے پوچھا کہ کیا آپ مجھے اپنے کلائنٹ کے حق میں وضاحت سے روک رہے ہیں؟ اب وضاحت کی باری جسٹس عُمر عطا بندیال کی تھی جِنہوں نے ایک مثال کا سہارا لیتے ہوئے کہا کہ ایک دفعہ منظور ایڈوکیٹ بینچ کے سامنے دلائل دے رہے تھے، اُن کا پہلا نُکتہ ناکام ہوا تو وہ دوسرے پر چلے گئے، وہ ناکام ہوا تو وہ تیسرے پر چلے گئے اور بالآخر تیسرا نکتہ قبول کرلیا گیا۔

وکیل بابر ستار نے اصرار کیا کہ ہو سکتا ہے وہ کل کوئی بات غلط کر گئے ہوں یا جو انہوں نے کہا ہو وہ صحیح طرح سے معزز ججز کو سمجھا نہ پائے ہوں اور بالآخر بابر ستار اپنا نُکتہ بیان کرنے میں کامیاب رہے۔ اس موقع پر جسٹس فیصل عرب فُل کورٹ کے سربراہ کی مدد کو آئے اور انہوں نے بابر ستار کو ہدایت دی کہ اُنہیں منیر اے ملک ایڈووکیٹ سے اپنے دلائل کے موازنہ کی ضرورت نہیں۔ بابر ستار نے جسٹس فیصل عرب کو جواب دیا کہ وہ موازنہ نہیں کر رہے بلکہ مُنیر اے ملک ایڈووکیٹ کے دلائل پر اپنا مُقدمہ کھڑا کر رہے ہیں۔

شاید بابر ستار اپنے نُکتے کی وضاحت اِس لئے بھی کرنا چاہ رہے تھے کہ بینچ میں بعض کرمنل لا کے ماہر ججز بھی موجود ہیں اور سول مُقدمہ کے نکات اُن تک پنچانے کے لئے یہ وضاحت ضروری ہوتی ہے۔ اپنے دلائل آگے بڑھاتے ہوئے بابر ستار ایڈووکیٹ کا مزید کہنا تھا کہ ججز کوڈ آف کنڈکٹ، ایف بی آر قانون اور آئینِ پاکستان میں ایسی کوئی شِق نہیں جو جج کو اِس بات کا پابند بناتی ہو کہ وہ اپنے خودمُختار اہلخانہ کے اثاثوں کو ظاہر کرنے کا پابند ہے۔ بابر ستار کا کہنا تھا کہ صرف جج نہیں پاکستان کے قوانین کسی شہری کو بھی اِس بات کر پابند نہیں بناتے اور صرف رُکنِ اسمبلی اپنی اہلیہ کے اثاثے انتخابی فارم میں ظاہر کرنے کے پابند ہیں۔



بابر ستار کا مزید کہنا تھا کہ اے آر یو کو جسٹس قاضی فائر عیسیٰ کے مالی معاملات اور ٹیکس گوشواروں تک غیر قانونی رسائی دی گئی۔ 2001 کا انکم ٹیکس آرڈیننس صرف انکم ٹیکس آفیسر کو ایسی معلومات تک رسائی کی اجازت دیتا ہے۔ بابر ستار نے اپنے نُکتے کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کوئی سرکاری مُلازم نہیں جِن کے اثاثوں تک یوں رسائی حاصل کی جاتی یا جسٹس قاضی فائر عیسیٰ پابند تھے کہ وہ اپنی اہلیہ کے اثاثے ظاہر کریں۔



یہ بھی پڑھیے: سابق وزیر اعظم نواز شریف اور چیف جسٹس ثاقب نثار آمنے سامنے







جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل بابر ستار کا کہنا تھا کہ سُپریم جوڈیشل کونسل بھی کسی جج سے اُس کی اہلیہ کے اثاثوں کا سوال نہیں کر سکتی۔ بابر ستار نے ایسٹ ریکوری یونٹ کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اے آر یو کوئی قانونی اتھارٹی نہیں ہے اور یہ صرف ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے قائم ہوا۔ کیونکہ اے آر یو پبلک سروس کی کیٹیگری میں نہیں آتا اِس لئے قانونی طور پر وہ سرکار کے پاس موجود معلومات تک رسائی بھی نہیں حاصل کر سکتا۔ اِس موقع پر جسٹس مُنیب اختر نے سوال اُٹھایا کہ اگر کسی سرکاری افسر سے اُس کے اہلخانہ کے اثاثوں پر تحقیقات ہو سکتی ہیں تو اُس سے یہ کیوں نہیں پوچھا جا سکتا کہ اُس نے اثاثے ظاہر کیوں نہیں کیے؟

بابر ستار نے جواب دیا کہ اگر اُس کے اہلخانہ خودمُختار ہیں تو ایسا سوال نہیں پوچھا جا سکتا۔ بابر ستار نے مُسکراتے ہوئے جسٹس مُنیب اختر کو کہا کہ وہ چاہیں گے کہ اِس معاملے پر مزید معزز ججز کی حِکمت سے فائدہ اُٹھائیں۔ جسٹس مُنیب اختر نے جواب دیا کہ آپ کی حِکمت ہم تک پہنچے گی تو ہم اِس پر اپنی حِکمت بنا پائیں گے۔ بابر ستار نے نُکتہ اُٹھایا کہ اسسٹنٹ ٹیکس کمشنر کو یہ اختیار نہیں تھا کہ وہ یہ معلومات انکم ٹیکس آفیسر سے طلب کرتا لیکن یہاں پر اسسٹنٹ کمشنر خط لکھ کر یہ معلومات طلب کر رہا ہے۔ بابر ستار کا کہنا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کی اجازت کے بغیر کوئی بھی اُن کے ٹیکس گوشواروں تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا تھا۔

یوں نہیں ہو سکتا کہ کراچی میں بیٹھا کمشنر بھی ہمارا ریکارڈ مانگ رہا ہو۔ جسٹس عُمر عطا بندیال نے اِس موقع پر سوال پوچھا کہ کیا آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ جو کام دائیں ہاتھ نے کرنا تھا وہ بائیں ہاتھ سے کیا گیا؟ جسٹس عُمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ صدر تو صرف یہی دیکھے گا کہ جو معلومات اُن تک آ رہی ہیں وہ متعلقہ ادارے سے آ رہی ہیں یا نہیں۔ باقی اتنی باریکیوں کی صدر کو سمجھ نہیں ہو سکتی۔ یہ تکنیکی معاملات ہیں جو قانونی کارروائی میں اُٹھائے جا سکتے ہیں۔ بابر ستار نے جواب دیا کہ اگر ایک سُپریم کورٹ کے جج کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کے لئے پوری ریاستی مشینری حرکت میں لائی گئی ہے تو پھر کسی کو تو یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا یہ سب قانون کے مُطابق بھی چل رہا ہے یا نہیں؟ جسٹس عُمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ پروسیجر پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں، وہ اتنا ضروری بھی نہیں ہوتا۔



بابر ستار نے جواب دیا کہ میں معذرت کے ساتھ آپ سے اختلاف کروں گا کیونکہ یہ ایک جج کا نہیں ایک ادارے کی ساکھ کا بھی معاملہ ہے۔ یوں نہیں ہو سکتا کہ آپ کسی کی خواہش پر ایک جج کے خلاف ریفرنس بھیجنا معمولی سا کام سمجھیں اور سپریم جوڈیشل کونسل کو مُتحرک کر دیں۔ اگر ایسا ہونے لگا تو عدلیہ کی ساکھ عوام کی نظر میں ختم ہو جائے گی کیونکہ ججز پر الزام بالواسطہ طور پر عدالت کی ساکھ داؤ پر لگا دیتا ہے۔ کسی بھی جج پر الزام لگانے سے قبل اچھی طرح جانچا جانا چاہیے کیونکہ یہ بہت بڑا اور غیر معمولی اقدام ہوتا ہے۔

جسٹس مُنیب اختر نے ریمارکس دیے کہ اگر کوئی مجاز اتھارٹی ایسا ریفرنس بھیجے تو سُپریم جوڈیشل کونسل تو کارروائی کی پابند ہوگی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل بابر ستار نے فوری جواب دیا کہ اگر کوئی اتھارٹی کُچھ خلاف قانون کرے تو خلاف قانون عمل پر عملدرآمد کا پابند کیسے ہوا جا سکتا ہے؟ بابر ستار کا مزید کہنا تھا کہ یہ ٹیکس معاملہ تھا جِس کا نوٹس صرف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کو جانا چاہیے تھا اور وہ جواب دے سکتی تھیں، اگر جواب سے ایف بی آر مُطمئن نہ ہوتا تو وہ کارروائی کر سکتا تھا اور اگر کارروائی سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ مُطمئن نہ ہوتیں تو وہ اپیل کر سکتی تھیں۔

بابر ستار نے اِس موقع پر ایک بہت اہم بات کی کہ جو معاملہ جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کو ایف بی آر کا نوٹس بھجوا کر حل کیا جا سکتا تھا، اُس کے لئے آپ یہاں ایف بی آر کو مطمئن کرنے کے لئے سُپریم کورٹ کے ایک جج کو اُٹھا کر باہر پھینکنا چاہ رہے ہیں۔ جسٹس مُنیب اختر اور بابر ستار میں بحث جاری تھی کہ فُل کورٹ کے سربراہ جسٹس عُمر عطا بندیال نے مُداخلت کرتے ہوئے گھڑی کی طرف اشارہ کر کے ریمارکس دیے کہ سوئی اپنی منزل پر پہنچ چُکی ہے۔



یہ بھی پڑھیے: مُنیر اے ملک کے دلائل پر تناؤ کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست کی سماعت کرنے والا لارجر بینچ کیسے ٹوٹا؟







جسٹس بندیال نے بابر ستار سے کہا کہ وہ چاہیں گے کہ کل وہ اپنے دلائل مُکمل کر لیں اور دوبارہ مُنیر اے ملک کو موقع دیں۔ لارجر بینچ کے سربراہ نے مُسکراتے ہوئے کہا کہ ہم اُمید کریں گے کہ کل بابر ستار ٹی ٹوئنٹی والی اننگز کھیلیں گے۔ بابر ستار نے جواب دیا کہ اگر معزز ججز سوالات نہیں پوچھیں گے تو وہ کل ہی دلائل ختم کر دیں گے۔ اِس پر ججز مُسکرا دیے اور فُل کورٹ سماعت کل تک مُلتوی کر کے برخاست ہو گئی۔
مزیدخبریں