آج کل پاکستانی میڈیا اور سوشل میڈیا میں باسمتی چاول کے پیٹنٹ حقوق پر بھارت سے ہونے والی کشیدگی کا بہت چرچا ہے۔ ساتھ ساتھ ہمالیائی گلابی نمک کی بابت بھی بات ہورہی ہے اور تاثر دیا جارہا ہے کہ بھارت اسے بھی اپنا قرار دے کر بیچ رہا ہے۔
بیرون ملک بسے پاکستانیوں کے کچھ فورمز میں پاکستان سے آیا ایک فارورڈڈ پیغام بھی نظر آیا جس میں انہیں چاول کے کچھ چنیدہ برانڈز کو خریدنے کی تاکید کی گئی ہے جو شرطیہ پاکستانی ہیں۔
سب سے پہلے پیٹنٹ کے ایشو کو سمجھتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے زیرِ سایہ کام کرنے والے 15 اہم اداروں میں سے ایک کا نام عالمی ادارہء دانشورانہ املاک World Intellectual Property Organisation ہے۔ گو اس نام کی تنظیم کی اساس 1970ء میں رکھی گئی لیکن حقیقت یہ ہے کہ 1883ء میں پیرس کنونشن برائے تحفظِ صنعتی املاک اس نوع کا پہلا عالمی اتحاد تھا جس کے ذریعے ترقی یافتہ ممالک نے دانشورانہ املاک سے متعلق اپنے قوانین کو ترقی پذیر ممالک پر لاگو کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔
عالمی تجارتی سمجھوتوں کی مختصر تاریخ ہر نظر ڈالیں تو جنرل ایگریمنٹ آن ٹریڈ اینڈ ٹیرف GATT دوسری جنگ عظیم کے بعد نافذ العمل ہوا۔ اس کے بطن سے پہلی جنوری 1995ء کو ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن World Trade Organisation ظہور پذیرہوئی۔ دنیا کے وہ 164 ممالک جو اس کے رکن ہیں ان تمام پر رکنیت کے ساتھ ہی دانشورانہ املاک کے سمجھوتے کی پاس داری لازم ہوجاتی ہے۔
اب ہم عالمی ادارہ دانشورانہ املاک کی طرف واپس آتے ہیں جو اس املاک کو مندرجہ ذیل پانچ اقسام میں تقسیم کرتا ہے:
1۔ کاپی رائٹ Copyright
کاپی رائٹ یا مصنف کے حقوق ایک قانونی اصطلاح ہے جس سے مراد وہ حقوق ہیں جو ایک موجد کو اپنے ادبی تخلیق یا فنی کاوش پر مل جاتے ہیں۔ اس صنف میں کتابیں، موسیقی، مصوری، مجسمہ اور فلم سے لے کر کمپیوٹر پروگرام، ڈیٹا بیس، اشتہارات، نقشے اور تکنیکی ڈرائنگ شامل ہیں۔
2۔ پیٹنٹ Patent
پیٹنٹ وہ خصوصی حق ہوتا ہے جو کسی اختراع کو رجسٹر کروانے سے حاصل ہوتا ہے۔ یہ اختراع کوئی خاص پیداوار یا مصنوعات (پروڈکٹ) بھی ہوسکتی ہے اور انہیں بنانے کا طریقہ (پروسیس) بھی۔ پیٹنٹ رجسٹر کرنے کی درخواست میں اس اختراع کے متعلق معلومات عوام الناس کے سامنے پیش کرنا لازمی ہوتا ہے۔
3۔ ٹریڈ مارک Trade mark
ٹریڈ مارک اس علامت کو کہتے ہیں جس سے ایک ادارے کی مصنوعات یا خدمات کو دوسرے ادارے کی مصنوعات یا خدمات سے امتیاز کیا جاسکے۔
4۔ صنعتی ڈیزائن Industrial Design
قانونی معنوں میں کسی بھی پروڈکٹ کی ساخت اور زیب و زینت کو صنعتی ڈیزائن کہتے ہیں۔ مثلا" ٹی وی یا پنکھے کی مخصوص شکل۔ یا خاص انداز میں ڈالی جانے والی لکیروں یا رنگوں کا امتزاج جیسے میکڈونلڈ کا ایم۔
5۔ جغرافیائی اشارہ Geographical Indication
ایک جغرافیائی اشارہ (GI) کسی پروڈکٹ کے مخصوص نقطہء آغاز کی نشاندھی کرتی ہے۔ اس سے ان خصوصیات اور شہرت کا اظہار ہوتا ہے جو اس مآخذ کی وجہ سے پروڈکٹ میں پائے جاتے ہیں۔ جی آئی ٹیگ دیتے ہوئے کبھی بھی اس خطہ ارض کو الگ نہیں دیکھا جاسکتا جس سے پروڈکٹ کا نام جڑا ہو۔
ایک جغرافیائی اشارہ کا حصول کسی فرد، کمپنی یا ملک کو یہ حق تفویض کرتا ہے کہ وہ کسی تیسرے فریق کو اس نام کے استعمال سے باز رکھ سکیں۔
وہ اشیاء جن پر جی آئی ٹیگ حاصل کیا جاسکتا ہے ان میں زرعی پیداوار، کھانے کی اشیاء، شرابیں، دست کاری اور صنعتی پیداوار شامل ہیں۔
باسمتی چاول جو صدیوں سے برصغیر پاک و ہند میں کاشت کیا جارہا تھا اس کا جغرافیائی اشارہ ایک امریکی کمپنی رائس ٹیک Ricetec Inc نے 1997ء میں امریکی پیٹنٹ آفس سے اپنے نام رجسٹر کرالیا تھا۔ رائس ٹیک کمپنی کا اپنا پس منظر قارئین کے لئے دلچسپی کا باعث ہوگا۔
ٹیکساس میں قائم رائس ٹیک انکارپوریٹڈ کا بنیادی کاروبار ہائبرڈ چاول کے بیج کو امریکی اور عالمی منڈیوں میں فروخت کرنا ہے۔ یہ کمپنی شہزادہء لینسٹائن فاؤنڈیشنPrince of Lichtenstein Foundation کی ملکیت ہے۔ اس ادارے سے منسلک اداروں میں ایل جی ٹیLGT گروپ شامل ہے جو اس وقت پرائیوٹ بینکنگ اور ذاتی اثاثہ جات کی دیکھ بھال کا دنیا میں سب سے بڑا ادارہ ہے جو ایک خاندان کی ملکیت ہو۔ اس گروپ کا کاروبار ملینیئرز اور بلینیئرز کو سرمایہ کاری کرنے کے مشورے دینا ہے۔
اس ادارہ سے منسلک مالیاتی گروپوں میں سے ایک بلیک سٹون Blackstone گروپ ہے جس کے بانیوں میں ارب پتی سٹیفن شوارزمین بھی ہیں یہ وہی صاحب ہیں جو صدر ٹرمپ کی بنائی ہوئی سٹریٹجک اور پالیسی فورم کے کچھ عرصہ چیئرمین رہے۔
کارلائل Carlyle گروپ بھی ایل جی ٹی سے منسلک مالیاتی فرم ہے۔ ان کی خدمات سے استفادہ کرنے والی مشہور شخصیات میں سعودی شہزادہ ولید بن طلال اور بن لادن گروپ کا نام بھی نمایاں رہا ہے۔ یہ ساری تفصیل بیان کرنے کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ عالمی تجارت اور دانشورانہ ملکیت کے معاملات کی شاخیں عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے تنے سے نکلتی ہیں ۔
رائس ٹیک کے باسمتی چاول کا پیٹنٹ اپنے نام کرانے کے کچھ عرصہ بعد یعنی سنہ 2000ء کی اپریل میں بھارتی حکومت نے ایکشن ایڈ Action Aid نامی عالمی این جی او کی معاونت سے حیاتیاتی قزاقی Biopiracy کا مقدمہ امریکہ میں دائر کردیا۔ اس وقت برطانوی اخبار گارجین کے مطابق بھارت نے اپنے دعوے کے حق میں پچاس ہزار صفحات سے زیادہ کے سائنسی شواہد پیش کئے۔ جس میں پنجاب کی لوک داستان ہیر وارث شاہ کا حوالہ بھی دیا گیا جو اٹھارویں صدی کے وسط میں لکھی گئی اور جس میں باسمتی چاول کا ذکر کیا گیا تھا۔
ہم نے یونہی اپریل 2000ء کے پاکستانی اخبارات کا جائزہ لیا تو اس مہینے کی سب سے بڑی خبر سابقہ وزیر اعظم نواز شریف کو عمر قید کی سزا کا سنایا جانا تھا۔ المختصر ہمیں کسی عالمی اخبار میں اس مقدمے میں پاکستانی شمولیت کا اشارہ نہیں ملا۔ سوائے 2005 میں ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے ایک پیپر میں جس میں پاکستانی مصنف نے ذکر کیا ہے کہ برآمد ہونے والے باسمتی میں 65 فیصد حصہ بھارتی اور 35 فیصد پاکستانی ہے۔ دلچسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ خود بھارت کے پیٹنٹ آفس نے سال 2015 اور 2016 کے درمیان باسمتی کو جی آئی ٹیگ دے کر اسے پنجاب، ہریانہ، ہماچل پردیش، اتر پردیش اور جموں و کشمیر کی زرعی پیداوار کے طور رجسٹر کیا۔
جنوری 2007ء کے ڈان اخبار کی ایک خبر میں باسمتی چاول کے تنازعے پر پاکستان کے بھارت کے خلاف ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں مقدمہ کرنے کا ذکر ملتا ہے۔ اسی خبر سے پتہ چلتا ہے کہ " پاکستان اور بھارت کے درمیان یورپی مارکیٹ میں باسمتی چاول کی مشترکہ رجسٹریشن حاصل کرنے کے مذاکرات ناکام ہوگئے۔
ایک اہلکار نے بتایا کہ یہ مذاکرات اس لئے ناکام ہوئے کیونکہ پاکستانی باسمتی کے کاشتکار اور برآمد کنندگان نے متفقہ طور پر بھارت کے ساتھ مشترکہ رجسٹریشن حاصل کرنے کو رد کردیا ہے۔"
یورپی کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق یورپ میں سالانہ ایک اعشاریہ تین ملین ٹن چاول درآمد کیا جاتا ہے جس کا 23 فیصد بھارت اور 15 فیصد پاکستان فراہم کرتا ہے۔
اس وقت پاکستانی رائس ایکسپورٹر کو خطرہ ہے کہ اگر یورپی کمیشن نے باسمتی کے بھارتی جغرافیائی اشارہ ٹیگ کو رجسٹر کرلیا تو ان کے لئے یورپی منڈی کے دروازے بند ہوجائیں گے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت پاکستان نے اس اہم ترین معاملہ میں اس وقت کیوں دلچسپی نہیں دکھائی جب اسے امریکی عدالت میں پیش کیا گیا تھا؟ کتنا عجیب اتفاق ہے کہ جو صاحب اس وقت وزیر تجارت تھے بیس برس بعد وہی اس وزارت کا انتظام سنبھالے ہوئے ہیں۔
ہماری رائے میں پاکستان میں مسلسل سیاسی عدم استحکام اور عالمی امور سے واقف مخلص رہنماؤں کا پاکستانی منظر عامہ پر نہ ہونا اس بہت بڑے بحران کی وجہ ہے۔ ایسے معاملات کو سطحی قوم پرستی کے جھوٹے جذبات ابھار کر حل نہیں کیا جاسکتا۔
پاکستان کو ضرورت ہے کہ فی الفور اس گھمبیر مسئلے کو سلجھائے۔ اس کے لئے پاکستان کو بھارت سے بات چیت کرنی چاہئے۔ پاکستان کو یہ بھی طے کرنا ہوگا کہ وہ یورپ سے کن شرائط پر اور کس قسم کے تعلقات کا خواہاں ہے۔ پچھلے چند سال کے واقعات اور پاکستانی قیادت کے تند و تیز بیانات سے تاثر ملتا ہے کہ ہمارے ارباب اختیار یوروپی مارکیٹوں کے دروازے پاکستانی مصنوعات پر بند کرانے کے خواہاں ہیں۔