’’چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جناب وقار سیٹھ سے میری پہلی ملاقات جون 1999 میں ہوئی۔ میں نے اس وقت نئی نئی وکالت شروع کی تھی اور اس شعبے میں میرے پہلے استادِ محترم جناب اعجاز یونس شاہ صاحب تھے جن کا دفتر خیبر بازار میں واقع پیر بخش بلڈنگ میں پہلی منزل پر تھا۔ وقار سیٹھ کا دفتر بھی اسی بلڈنگ میں تھا۔ میں جب پہلی بار سیٹھ صاحب کے دفتر میں داخل ہوا تو کارل مارکس، لینن اور ٹراٹسکی کی بڑی بڑی تصاویر دیواروں پر آویزاں دیکھ کر حیران رہ گیا اور حیرانگی کی وجہ یہ تھی کہ یہ وہ دور تھا جب مارکسزم کا نظریہ ’آؤٹ آف فیشن‘ ہو چکا تھا۔ اور پشتونوں کے بڑے بڑے مارکسسٹ، سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد مارکسزم سے دم دبا کر پشتون نیشنلسٹ پارٹیوں اور این جی اوز میں پناہ لے چکے تھے اور نئے نئے مشرف با مارکیٹ اکانومی اور لبرلزم ہو چکے تھے! اور یہ مارکسزم سے ہمدردی رکھنے والے ہم جیسے نوجوانوں کے لئے لمحۂ فکریہ تھا۔ ایسے وقت میں جب مارکسزم کا نظریہ ’آؤٹ آف فیشن‘ ہوچکا تھا کسی کے دفتر میں ان تصاویر کے ذریعے اس نظریے سے وابستگی اور وفاداری کا اظہار مجھے بہت اچھا لگا۔
’’سیٹھ صاحب نام کو تو سیٹھ تھے لیکن ان کی چھوٹی سی پرانی اور خستہ حال سوزوکی آلٹو دیکھ کر یقیناً کوئی بھی انہیں سیٹھ سمجھنے کی جسارت نہیں کر سکتا تھا۔ لیکن طبیعت سے وہ یقیناً سیٹھ تھے۔ وقار، شائستگی اور ملنساری ان کی طبیعت میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ سیٹھ صاحب کم گو انسان تھے۔ غیر ضروری باتوں سے اجتناب اور انتہائی نپے تلے انداز میں گفتگو کیا کرتے تھے۔
’’ایک قابل وکیل ہونے کے ساتھ ساتھ وہ قانونی اخلاقیات کے چلتے پھرتے مجسم تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وکلا اور جج صاحبان میں ان کی بے پناہ قدر تھی۔ وہ کبھی بھی کوئی ایسا کیس قبول نہیں کیا کرتے تھے جو ان کی رائے میں نہیں بنتا تھا۔ 2005-2001 تک میں پشاور یونیورسٹی کا لیگل ایڈوائزر رہا۔ میں نے کئی بڑے بڑے writ petition cases ان کے پاس بھیجے اور ان سے درخواست کی کہ وہ ان کی پیروی کریں لیکن وہ انہیں مطالعے کے بعد یہ کہہ کر واپس کر دیا کرتے تھے کہ پہلے ہم نے پہلے available remedy exhaust کرنی ہے۔ اور اس طرح وہ ایک یقینی فیس ٹھکرا دیا کرتے تھے! اگر ان کی نظر میں کوئی کیس نہیں بنتا تھا تو آپ ان کی قانونی خدمات کسی بھی صورت میں اور کسی بھی قیمت پر نہیں خرید سکتے تھے۔ وہ بہت سے وکلاء صاحبان کی طرح برائے فروخت نہیں تھے۔ لیکن اگر وہ کوئی صحیح کیس قبول بھی کر لیتے تو ہمارا جھگڑا اس پر ہوا کرتا تھا کہ وہ کم از کم مناسب فیس ضرور قبول کریں لیکن وہ مناسب سے بھی کم فیس لینے پر اسرار کیا کرتے تھے۔ شاید یہی ان کی سینئر وکیل ہونے کے باوجود محض برائے نام سیٹھ ہونے کی وجہ تھی۔
’’آنے والے سالوں میں جس کسی نے بھی اپنے ذاتی کیس کی پیروی کے لئے یا کسی شاگرد نے internship کے لئے مجھ سے کسی وکیل کی recommendation مانگی میرے لبوں پر سیٹھ صاحب کا نام سب سے پہلے آیا کرتا تھا۔
’’یہ وقار سیٹھ صاحب کی سالوں پر مشتمل ایمانداری اور قانونی اخلاقیات کی پیروی کا (اور شاید ان کے صحیح معنوں میں کامریڈ ہونے کا) نتیجہ ہے کہ انہوں نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسے فیصلے لکھے جو کسی اور کو لکھنے کی جرات کبھی نصیب نہیں ہوئی۔
’’مشرف کو سزائے موت دینے کا فیصلہ تو سب کو معلوم ہے لیکن ان کا سب سے جراتمندانہ فیصلہ ملٹری کورٹس کی جانب سے دیی گئی 72 کے قریب سزائے موت اور عمر قید کی سزاؤں کو معطل کرنا تھا۔ اس فیصلے میں پہلی بار کسی عدالت میں فوج کے انٹرنمنٹ سینٹروں میں ہونے والے بہیمانہ تشدد اور ظلم کی داستانوں پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے اپنے فیصلے میں الزام لگایا کہ اس نے بیک وقت پولیس، استغاثہ، دفاع، جج اور سزا دینے والوں کا کام اپنے ہاتھوں میں لے کر قانون اور انصاف کی دھجیاں اڑائی تھیں۔
’’مجھے اس پر بہت فخر ہے کہ پشتونخوا کی زمین ہی ایسے جراتمند جج صاحبان کو پیدا کر سکی ہے۔‘‘
یہ تھے سلیم ایڈووکیٹ کے الفاظ جو انہوں نے اس بیش بہا اثاثے کے لئے لکھے تھے۔ گذشتہ چند سالوں میں اس قوم نے اپنے بڑے ہمدرد کھو دیے ہیں۔ ان میں ایک اضافہ اور ہو گیا۔ جسٹس وقار سیٹھ چلے گئے۔ لیکن ان کو کبھی بھلایا نہیں جا سکے گا۔ وہ کہتے ہیں نا، ججز نہیں، ان کے فیصلے بولتے ہیں۔ ان دو فیصلوں نے جسٹس وقار سیٹھ کو بھی امر کر دیا ہے۔