ملالہ یوسف زئی نے لاہور سے تعلق رکھنے والے اسپورٹس منیجمنٹ سے وابستہ عصر ملک سے 9 نومبر کو برطانوی ریاست انگلینڈ کے شہر برمنگھم میں سادگی سے شادی کی تھی۔
اس سے قبل انہوں نے رواں برس جون میں ’ووگ‘ میگزین کو دیے گئے انٹرویو میں دیگر معاملات سمیت شادی پر بھی بات کی تھی۔
ملالہ نے شادی سے متعلق بات کرتے ہوئے سوال اٹھایا تھا کہ لوگوں کو شادی کی ضرورت کیوں پڑتی ہے؟ اور رومانوی تعلقات کے لیے لوگ شادی ہی کیوں کرتے ہیں، لازمی نہیں کہ شادی کا معاہدہ کیا جائے؟
سماجی رہنما کا کہنا تھا کہ ان کا فی الحال شادی کا ارادہ نہیں ہے اور نہ ہی وہ بچے پیدا کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔
انہوں نے بتایا تھا کہ لیکن ان کے والدین کے خیالات الگ ہیں اور ان کی والدہ کی خواہش ہے کہ وہ شادی کریں۔
ملالہ یوسف زئی کے مطابق والدہ انہیں شادی کی فوائد بتاتی رہتی ہیں اور کہتی رہتی ہیں کہ شادی ایک خوبصورت تعلق اور رشتہ ہوتا ہے۔
اور اب شادی کرنے کے بعد انہوں نے ‘ووگ‘ میں ہی لکھے گئے اپنے مضمون میں بیان کی وضاحت کردی۔
اپنے مضمون میں ملالہ یوسف زئی نے لکھا کہ لوگوں کی جانب سے تعلقات سے متعلق پوچھے گئے سوالات پر انہوں نے ہمیشہ ہی یہی جواب دیا ہے کہ ’وہ شادی نہیں کرنا چاہتیں یا پھر کم از کم وہ 35 سال کی عمر تک رشتہ ازدواج میں نہیں بندھیں گی‘۔
نوبیل انعام یافتہ رہنما نے واضح کیا کہ ’وہ شادی کے خلاف نہیں ہیں لیکن اس کی روایات اور رواج سے متعلق محتاط تھیں اور یہ کہ انہیں شادی سے متعلق ’پدرشاہانہ‘ سوچ پر اعتراض تھا، کیوں کہ عام طور پر شادی کو خواتین کی قربانی سمجھا جاتا ہے اور ان کا کیریئر تقریباً ختم ہوجاتا ہے‘۔
ملالہ یوسف زئی نے لکھا کہ ان کا خیال تھا کہ شادی سے شخصی آزادی ختم ہوجاتی ہے، وہ ایک آزاد خاتون کی حیثیت سے زندگی نہیں گزار سکیں گی، کیوں کہ دنیا بھر میں شادی کے حوالے سے مختلف روایات ہیں اور تقریباً ہر جگہ اس سے خواتین کی اہمیت کم ہوجاتی ہے، اس لیے انہوں نے اس مسئلے کا حل یہ نکالا تھا کہ انہیں شادی کرنی ہی نہیں ہے‘۔
انہوں نے اپنے طویل مضمون میں اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ والدین کی جانب سے سمجھائے جانے اور عصر ملک سے ملنے اور ان سے تعلقات پر بات کرنے سے ان کے خیالات تبدیل ہوئے۔
ملالہ یوسف زئی نے لکھا کہ ان کے سرپرستوں، والدین، قریبی ساتھیوں اور عصر ملک نے شادی سے متعلق ان کی سوچ بدلی اور انہوں نے اس بات پر غور کیا کہ اگر ہم سفر اچھا ملے تو شادی برابری، مساوات، انصاف اور اقدار کو بڑھانے کا ذریعہ بھی ہو سکتی ہے۔
انہوں نے لکھا کہ اب بھی ان کے پاس خواتین کو شادی سے متعلق درپیش مسائل کے جوابات نہیں ہیں، تاہم انہیں یقین ہےکہ اب وہ شادی شدہ زندگی میں انصاف، برابری اور مساوات کے ساتھ آگے بڑھیں گی، اس لیے انہوں نے سادگی سے 9 نومبر کو عصر ملک کے ساتھ شادی کی۔
اپنے مضمون میں انہوں نے کم عمری میں لڑکیوں کی شادی سے متعلق ڈیٹا بھی شامل کیا اور بتایا کہ سالانہ دنیا بھر میں ایک کروڑ 20 لاکھ لڑکیوں کی شادیاں ان کی عمر 18 سال ہونے سے پہلے ہی کروادی جاتی ہے۔
ملالہ یوسف زئی نے کم عمری میں شادیوں سے متعلق اپنی جان پہچان والی لڑکیوں کی مثالیں بھی دیں اور بتایا کہ ان کی ایک دوست کی شادی کم عمری میں کردی گئی تھی اور وہ 14 سال کی عمر میں بچے کی ماں بن چکی تھیں۔
انہوں نے مزید لکھا کہ بہت ساری لڑکیاں کیریئر شروع ہونے سے پہلے شادی کر لیتی ہیں، جس کے بعد ان کے آگے بڑھنے کے امکانات ختم ہوجاتے ہیں جب کہ کئی لڑکیاں اسکول کی تعلیم کے دوران ہی رشتہ ازدواج میں بندھ جاتی ہیں اور انہیں اپنی تعلیم چھوڑنی پڑتی ہے۔
ملالہ یوسف زئی نے مضمون میں یہ بھی بتایا کہ ان کی عصر ملک سے پہلی ملاقات کب ہوئی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ عصر ملک سے ان کی پہلی ملاقات جون 2018 میں آکسفورڈ یونیورسٹی میں ہوئی تھی، جہاں وہ دوستوں کے پاس آئے تھے اور گفتگو کے بعد دونوں میں تعلقات استوار ہوئے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کی شادی کے کپڑے ان کی والدہ لاہور سے لائی تھیں جب کہ سسرالیوں نے ان کے لیے زیورات بھجوائے اور انہوں نے اپنے ہاتھوں پر مہندی خود ہی لگائی۔
ملالہ یوسف زئی نے لکھا کہ عصر ملک نے برمنگھم میں انہیں جوتے دلوائے اور اپنے لیے بھی کچھ خریداری کی جب کہ ان کے والد نے ان کی شادی کے کھانے کا بندوبست کیا اور انہوں نے سادگی سے 9 نومبر کو شادی کرکے نئی زندگی کا آغاز کیا۔