اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ افغانستان میں 75 فیصد لڑکیوں نے سکولوں میں واپسی کے بعد دوبارہ تعلیم شروع کر دی ہے۔ عالمی برادری تضاد کا شکار ہے، ایک طرف خواتین کی تعلیم پر زور دیتا رہا ہے لیکن دوسری طرف اساتذہ کی تنخواہوں پر بہت کم توجہ دی گئی ہے کیونکہ ملک کے اثاثے منجمد ہونے کی وجہ سے ادائیگی مشکل ہو رہی ہے۔
انہوں نے افغانستان کی عبوری حکومت کے خلاف غیر ملکی میڈیا میں جاری منفی مہم کا ذکر کرتے ہوئے اسے حقائق کے منافی قرار دیا۔ اس حوالے سے انہوں نے بتایا کہ پانچ لاکھ سرکاری ملازمین کو اب تنخواہیں دی جا رہی ہیں جبکہ سیاسی نظریات کی بنیاد پر اب تک ایک بھی ملازم کو نوکری سے نہیں نکالا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ کسی خاتون کو نوکری سے نہیں نکالا گیا اور نہ ہی تنخواہ میں کٹوتی کی گئی۔ افغانستان میں تقریباً 3000 کلینک اور ہسپتال ہیں جو ابھی تک کام کر رہے ہیں۔
امیر متقی نے کہا کہ عالمی برادری افغان عبوری حکومت سے جو اصلاحات کرانا چاہتی ہے، وہ پرامن طریقے سے بھی کی جا سکتی ہیں، نہ کہ دباؤ کے ہتھکنڈوں سے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ کابینہ تمام قومیتوں کے نمائندے موجود ہیں،جس سے ایک جامع حکومت کے لیے بین الاقوامی برادری کی شرائط کو پورا کیا گیا ہے۔ امیر متقی نے کہا کہ ان کی حکومت چاہتی ہے کہ افغانستان اب بڑی طاقتوں کے لیے تصادم کا مرکز نہ رہے۔انہوں نے کہا کہ افغانستان میں 43 سالوں میں پہلی بار ایک مرکزی، ذمہ دار اور خودمختار حکومت قائم ہوئی ہے جس کا ملک کے ایک ایک انچ پر کنٹرول ہے۔