جرمن خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق مقامی افراد نے طالبان کے حلیے جیسے 29 مشکوک افراد کو شہر کے باہر ایک سکول کے قریب سے پکڑ کر فوج کے حوالے کیا تھا۔
مقامی افراد کے مطابق یہ لوگ سکول کے باہر جمع تھے، جب سکول کے چوکیدار نے غیر مقامی لوگوں کو دیکھا تو سب کو خبردار کرنے کے لیے کچھ ہوائی فائر کیے۔ جس سے دیکھتے ہی دیکھتے علاقے میں گڑبڑ کی اطلاع پھیل گئی اور پاراچنار کے لوگ اور قبائلی عمائدین لشکر کی صورت میں وہاں پہنچ گئے۔
مقامی لوگوں نے ان مشکوک افراد کو فوج اور انتظامیہ کے پہنچنے تک پکڑ کر بٹھا لیا، جس کے بعد میڈیا پر یہ خبریں گردش کرنے لگیں کہ پاراچنار میں سکول پر حملہ کرنے والے دہشتگردوں کو مقامی افراد نے پکڑ کر فوج کے حوالے کر دیا۔
جرمن خبر رساں ادارے سے بات کرتے ہوئے مقامی صحافیوں نے بتایا کہ مشتبہ افراد ایک کوچ اور ڈبل کیبن گاڑی میں سوار تھے۔ وہ سکول کے سامنے سے گزر رہے تھے جب ان کی گاڑی کا ایک ٹائر پنکچر ہو گیا۔ وہ لوگ پنکچر بنوانے کے لیے رُکے ہوئے تھے کہ ایک موٹر سائیکل سوار نے گزرتے ہوئے ان پر فائرنگ کی۔ فائرنگ کی آواز سُن کر سکول کا چوکیدار چوکنا ہو گیا اور طالبان کے کسی حملے کے خوف کی وجہ سے اُس نے بھی ہوائی فائر کیے۔
کُرم سے رکن قومی اسمبلی ساجد طوری نے بتایا کہ بظاہر یہ معاملہ غلط فہمی کا نتیجہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ شُکر ہے کہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ مقامی عمائدین نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ ان لوگوں سے نہ تو کوئی ہتھیار ملے اور نہ ہی انہوں نے کسی پر کوئی حملہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس لیے معاملے کو رفع دفع کیا گیا اور ان افراد کو سیکیورٹی فورسز کے حوالے کر دیا گیا۔