پس منظر:
نواز شریف اس واقعے سے ڈھائی سال پہلے فروری 1997 کے عام انتخابات کے بعد اقتدار میں آئے تھے (محترمہ بینظیر بھٹو کی دوسری حکومت کی برطرفی کے بعد)۔ اکتوبر سے پہلے ہی وزیر اعظم اور فوج کے سربراہ جنرل پرویز مشرف کے درمیان احتلافات اور عدم اعتماد کی افواہیں چل رہی تھیں کیونکہ فوج کے سربراہ نے کارگل میں کارروائی (یا جنگ) کا فیصلہ وزیر اعظم سے مشاورت کے بغیر کیا تھا اور اطلاعات کے مطابق دونوں میں رابطہ تقریباً منقطع ہو چکا تھا۔ پھر ہوا یہ کہ 12 اکتوبر کو جب جنرل مشرف سری لنکا کے دورے پر گئے ہوئے تھے تو وزیر اعظم نے اعلان کر دیا کہ انہوں نے جنرل مشرف کو ہٹا دیا ہے اور ان کی جگہ جنرل ضیاالدین کو نیا فوجی سربراہ مقرر کر دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: پہلی بینظیر بھٹو حکومت کیوں برطرف کی گئی؟ 6 اگست 1990 کی کچھ یادیں
اس تقرری کا عام اعلان سرکاری خبر کی شکل میں کیا گیا۔ اس کی خبر صرف دو بار ٹیلی وژن نیوز پر چلی، جس میں ایک بار وہ فوٹیج بھی دکھائی گئی جس میں جنرل ضیاالدین کو باقاعدہ عہدے کے ’پِپس‘ یونیفارم پر پہنائے جا رہے ہیں۔ شام پانچ بجے اس خبر کے چلنے کے بعد پی ٹی وی نیوز اسلام آباد میں ایک یادگار ڈرامہ دیکھنے میں آیا۔
صحافی نے کیا دیکھا؟
صحافی مطیع اللہ جان اس وقت پی ٹی وی میں ’آن کیمرا رپورٹر‘ کے طور پر کام کرتے تھے۔ وہ اس روز کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ وہ کوئی پانچ بجے کے بعد اسلام آباد میں پی ٹی وی کے مرکز پر کسی اسائنمنٹ کے بعد واپس آئے تو انہیں لگا ماحول کچھ بدلا ہوا ہے۔ غیر معامولی خاموشی تھی اور لوگ بڑے سہمے ہوئے تھے۔
’میں نیوز روم میں گیا تو دیکھا کہ وہاں کئی افسران انگلش نیوز ڈیسک کے ارد گردبیٹھے تھے، نیوز کاٹسر شائستہ زید وہاں تھیں، ان کے ہاتھ میں بلیٹن کا سکرپٹ جو وہ پڑھ رہی تھیں، ڈائریکٹر نیوز شکور طاہر بھی تھے اور کنٹرولر نیوز ایم زیڈ سہیل صاحب بھی موجود تھے۔ نیو روم میں داخل ہوتے ہوئے مجھے کسی نے بتا دیا تھا کہ جنرل مشرف کو عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے اور ان کی جگہ جنرل ضیاالدین کو نیا آرمی چیف بنا دیا گیا۔ یہ ایک بہت ہی بڑی خبر تھی تو میں بھی وہاں جا کر بیٹھ گیا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ افسران پریشان نظر آ رہے تھے۔ ’’سب سنجیدہ بیٹھے ہوئے تھے، کوئی بات کرنے کو تیار نہیں تھا۔ تو میں یہ دیکھ ہی رہا تھا کہ اچانک ہی دروازہ کھلا اور ایک میجر صاحب اسلحے (شاید کسی قسم کی مشین گن تھی) اور کچھ سپاہیوں کے ساتھ اندر آئے اور انہوں نے پوچھا کہ ’نیوز ڈیسک کدھر ہے؟‘ پھر وہ خبرنامہ ڈیسک کی طرف چلے گئے لیکن وہاں تو ابھی لوگ آئے نہیں تھے تو پھر وہ واپس انگلش نیوز ڈیسک کی طرف آ گئے۔‘‘ (بعد میں شائع ہونے والی کئی تحریروں کے مطابق یہ میجر نثار تھے جن کا تعلق عالباً پنجاب رجیمنٹ سے تھا)۔
’’میجر صاحب نے پوچھا کہ ’یہاں اِن چارج کون ہے؟‘ تو ایم زیڈ سہیل صاحب جو کنٹرولر تھے انہوں نے ڈائریکٹر نیوز کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ یہ ہیں شکور طاہر صاحب یہ ڈائریکٹر نیوز ہیں۔‘‘
اس کے بعد میجر کی موجودگی کا مقصد واضح ہوا کیونکہ انہوں نے ڈائریکٹر نیوز سے کہا کہ آرمی چیف کی برطرفی کی خبر نہیں چلے گی۔ باقی خبریں آپ روٹین میں چلائیں، بلیٹن کو آن ائر کریں لیکن یہ خبر نہیں چلے گی۔‘‘
مطیع اللہ جان کو یاد ہے کہ ’’اس پر اویس بٹ نے (جو نیوز ایڈیٹر تھے) اس خبر کو سکرپٹ میں سے نکال کر ہوا میں لہریا اور کہا کہ یہ میں نے اس کو نکال دیا ہے۔ پھر وہ کاغذ میجر صاحب کے سامنے کچرے دان میں پھینک دیا اور شائستہ زید سے کہا کہ آپ بھی یہ خبر نکال دیں تو انہوں نے بھی نکال دی۔ میجر صاحب اپنی گن لے کر کھڑے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ پلیز اپنی بندوق کی نالی زمین کی طرف کر لیں، اپنے لوگ ہیں، یہاں کوئی دشمن فوج تو ہے نہیں، تو احتیاط کریں کہ غلطی سے اگر گولی چل جائے تو کوئی نقصان نہ ہو جائے۔‘‘
مطیع اللہ جان کہتے ہیں کہ ان کو صورتحال بڑی خطرناک لگی اور اس لئے وہ ان میجر صاحب کو کہہ رہے تھے کہ گن اپنی نیچے کر لیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ بات کر ہی رہے تھے کہ ڈائریکٹر نیوز مجھے پکڑ کر ایک طرف لے گئے اور مجھے کہا کہ آپ بحث نہ کریں ان سے۔ کہیں کوئی ایسی بات نہیں ہونی چاہیے۔‘‘
ان کو یاد ہے کہ میجر نے پھر پوچھا کہ ’کنٹرول روم کدھر ہے؟‘ تو پھر ان کو کوئی کنٹرول روم کی طرف لے گیا اور کچھ سپاہی نیوز روم میں ہی کھڑے رہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کچھ سپاہیوں نے نشریات کے دوران سٹوڈیو میں رہنے کی کوشش بھی کی لیکن نیوز ریڈر شائستہ زید کے اعتراض کرنے پر ان کو نکلنے کو کہا گیا۔
انگلش نیوز کا بلیٹن شروع ہو گیا۔ اس دوران مزید ڈرامہ ہوا۔
مطیع اللہ جان نیوز روم سے نکلے تو انہوں نے دیکھا کہ ایک باوردی برگیڈیئر صاحب ایک پِستول لہراتے ہوئے سیڑھیوں سے اوپر آ رہے تھے اور انہوں نے پوچھا کہ ’کنٹرول روم کدھر ہے؟‘ مطیع اللہ جان کہتے ہیں کہ ’میں نے ان کو فوراً پچان لیا۔ وہ برگیڈیئر جاوید (اقبال) تھے جو کہ وزیر اعظم کے ایم ایس یعنی ملٹری سیکرٹری تھے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ان کے ذہن میں ایک لمحے کو یہ سوال آیا کہ کیا برگیڈیئر جاوید اب ان میجر کے ساتھ ہیں؟ لیکن صورتحال جلد واضح ہوئی جب برگیڈیئر جاوید نے کنٹرول روم میں داخل ہو کر اپنا تاعرف کروایا اور اعلان کیا کہ وہ پاکستانی فوج میں برگیڈیئر ہیں اور انہوں نے وہاں موجود فوجیوں سے کہا کہ وہ فوری طور پر اپنی بندوقیں نیچے کریں اوروہاں سے باہر نکل جائیں۔
یہ بھی پڑھیے: جب جنرل ضیا نے اپنے سلیکٹڈ وزیر اعظم کی حکومت خود ہی فارغ کر دی
مطیع اللہ جان کے مطابق برگیڈیئر جاوید نے وہاں موجود فوجیوں کو حکم دیا ’سٹینڈ ڈاؤن! آئی آرڈر یو ٹو سٹینڈ ڈاؤن‘۔
لیکن میجر نے برگیڈیئر کا آرڈر ماننے سے انکار کر دیا اور کہا کہ وہ اپنی برگیڈ یعنی ٹرپل ون برگیڈ سے آڈرز لے رہے ہیں، کسی اور سے نہیں۔ انہوں نے برگیڈیئر جاوید سے کہا آپ چاہیں تو میری کمانڈ سے بات کر لیں۔ مطیع اللہ جان کہتے ہیں کہ ’ان کے ساتھ جو سپاہی تھا، اس کے پاس وائرلس سیٹ تھا اور میجر نے جب کہا کہ ’آپ میری کمانڈ سے بات کریں‘ تو انہوں نے وائرلیس کا کریڈل برگیڈیئر صاحب کی طرف بڑھایا لیکن برگیڈیئر جاوید نے ایک بار پھر زور سے اپنا آرڈر دہرایا۔
میجر صاحب نے پھر انکار کیا تو بقول مطیع اللہ جان کے ’پھر کیا ہوتا ہے کہ برگیڈیئر صاحب اپنی پستول میجر صحاب کی کنپٹی پر رکھ دیتے ہیں اور میجر صاحب کے پاس جو گن تھی وہ بریگیڈیئر صاحب کے پیٹ کے طرف تھی۔‘
بقول ان کے، یہ انتہائی کشیدگی کا لمحہ تھا۔ دو فوجی افسران ایک دوسرے کے اوپر پندوق تانے ہوئے تھے۔ گولی چل جاتی تو صورتحال اچانک بگڑ سکتی تھی۔
مطیع اللہ جان کہتے ہیں کہ میجر کے ہمراہ سپاہی نے بھی اپنی بندوقیں سیدھی کی ہوئی تھیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کریں۔ ہم ان دونوں کو الگ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ پرویز رشدید صاحب (اس وقت پی ٹی وی کے چیئرمین) بھی میجر صاحب کو سمجھا رہے تھے کہ ایسا نہ کریں‘‘۔ وہ کہتے ہیں کہ پرویز رشید میجر صاحب کو آئین کے آرٹکل 6 کا حوالہ بھی دے رہے تھے۔ برگیڈیئر جاوید بار بار میجر صاحب کو کہہ رہے تھے کہ ڈِس آرم کریں۔ یہ بحث جاری تھی تو پیچھے وزیر اعظم کی اپنی سکیورٹی کے ایک رکن تھے، کافی معروف تھے، ان کا نام تھا حاجی صدیق صاحب، وہ اچانک میجر صاحب کے پیچھے سے نمودار ہوئے اور انہوں نے میجر صاحب کی گن کو پکڑا اور اس کے سٹریپ کو ان کے کندھے سے اتار کر گن چھین لی۔ اس پر سپاہیوں نے اپنی بندوقیں جارحانہ انداز میں ان کی طرف کر لیں ۔ ہم نے ان کو چیخ کر کہا، نہیں میجر صاحب نے خود اپنی بندوق حوالے کی ہے اور کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے۔ بہت مشکل سے سپاہیوں کو سمجھایا۔ برگیڈیئر صاحب نے بھی ان پر اور زیادہ رعب ڈالا اور پھر ان سے بندوقیں لے لی گئیں۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ وزیر اعظم کے سکیورٹی اہلکاروں نے سپاہیوں سے بندوقیں لے لیں اور پھر میجر صاحب کو انجینیئرز کا ایک کمرہ تھا، وہاں لے جا کر بند کر دیا گیا اور سپاہییوں کو دوسری طرف لے جایا گیا۔
’’پھر بریگیّئر صاحب نے اس خبر کی ویڈیو ٹیپ چلوائی۔ مطیع اللہ جان کہتے ہیں کہ جہاں تک ان کو یاد ہے یہ خبر اور ٹیپ انگلش نیوز کے بلیٹن کے آخر میں چلی، غالباً شائستہ زید بلیٹن میں کھیلوں کی خبوں تک اس وقت پہنچ گئی تھیں اور ان سے یہ خبر پڑھوائی گئی اور ٹیپ چلوائی گئی‘‘۔
مطیع اللہ جان کہتے ہیں کہ اس فوٹیج میں جنرل ضیا الدین کو فوج کے سربراہ کے ستارے پہنائے جا رہے تھے۔ ’’بریگیڈئر جاوید بھی اس ویڈیو میں نظر آئے سٹارز کو قالین سے اٹھاتے ہوئے۔ شاید جلدی میں یہ سب ہوا کیونکہ ٹیپ ایڈٹ نہیں کی گئی تھی، اسی طرح چلائی گئی۔‘‘ وہ بتاتے ہیں کہ جب برگیڈیئر جاوید نکل رہے تھے تو انہوں نہ وہاں موجود ایس ایس جی کے کمانڈوز سے بھی کہا کہ وہ بندوقیں ان کے حوالے کریں لیکن کمانڈوز نے انکار کر دیا۔ ’شاید پھر یہ طے ہوا کہ وہ بندوقیں اپنے پاس رکھ لیں لیکن جگہ سے نہ ہلیں۔‘
پی ٹی وی کے ایک سینیئر اہلکار نے بتایا کہ برگیڈیئر صاحب نے نکلتے ہوئے ان سے کہا تھا کہ وہ ٹی وی سٹیشن کی عمارت کو اندر سے بند کر دیں اور فوجی دستوں کو نہ گھسنے دیا جائے۔ مطیع اللہ جان کو یاد ہے کہ بعد میں جب وہ نیوز روم میں پہنچے تو ’’ہمارے ایک سینیئر پروڈیوسر تھے مجدد شیخ صاحب، وہ کھڑکی کے پاس کھڑے تھے اور انہوں نے کہا کہ ’اصلی والے آ گئے اب‘ یعنی مزید فورسز آ گئی ہیں۔‘‘
اس رات کی کئی تاریخی فوٹوز موجود ہیں جن میں فوجی کمانڈوز کو پی ٹی وی کی دیواریں پھلانگتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ گیٹ کھلا تو پھرفوجی ٹرک وہاں داخل ہو سکے۔ مطیع اللہ جان کہتے ہیں کہ پھر فوجی پی ٹی وی سٹیشن کے اندر آ گئے، میجر صاحب کو کمرے سے نکالا گیا اور فوج نے پی ٹی وی کا کنٹرول سنبھال لیا۔
ان کے مطابق پی ٹی وی کے عملے کو بتا دیا گیا کہ ان کو یہیں رہہنا ہوگا۔ ’’ہمیں وہاں صبح چار بجے تک رکھا گیا۔ پھر آئی ایس پی آر کے بھی لوگ آ گئے، بریگیڈیئر سولت تھے، کرنل مقصود تھے۔ اور شاید ٹرانسمیشن بھی ہماری کاٹ دی گئی۔ اس رات خبرنامہ بھی نہیں چلا۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ وہاں ٹی وی سٹیشن میں انہوں نے جنرل مشرف کی تقریر نہیں دیکھی جس میں انہوں نے منتخب حکومت کی برطرفی کا اعلان کیا۔
مطیع اللہ جان کہتے ہیں کہ آئی ایس پی آر کے اہلکاراس بات پر بھی گفتگو کر رہے تھے کہ کیا اب پارلیمان میں نواز شریف کی کوئی حمایت کرے گا یا نہیں۔ (رپورٹ کے لئے اس وقت کے آئی ایس پی آر کے سربراہ جنرل راشد قریشی سے بات کرنے کے لئے رابطہ کیا گیا لیکن انہوں نے بات نہیں کی۔ البتہ مسیج کے تبادلے میں انہوں نے یہ کہا کہ اس واقعے کو اتنے سال گزر چکے ہیں کہ بہت سی چیزیں یاد نہیں اور ویسے بھی اس پر ’نواز شریف والے بہت جھوٹ بول چکے ہیں‘۔‘‘
خبر کیسے چلی؟ پی ٹی وی چیئرمین کی یادیں
پی ٹی وی پر وزیر اعظم کے چیف آف آرمی سٹاف کو برطرف کرنے کی خبر کیسے چل سکیں؟
یہ سب اچانک کیا گیا۔ سینیٹر پرویز رشید اس وقت چیئرمین پی ٹی وی تھے اور وہ کہتے ہیں کہ وہ خود پی ٹی وی سٹیشن گئے تھے اس خبر کو چلوانے کے لئے۔ وزیر اعظم نے ان کو ایک پرچی پکڑائی تھی جس پر لکھا ہوا تھا کہ جنرل مشرف کو برطرف کر دیا گیا ہے اور ان کی جگہ جنرل ضیاالدین کو آرمی چیف بنا دیا گیا ہے۔
پرویز رشید کہتے ہیں کہ پانچ بجے کی خبروں میں وہ خبر پڑھوا کر پھر پرائم منسٹر ہاؤس واپس آ گئے تھے لیکن کچھ ہی دیر بعد وزیر اعظم کے ملٹری سیکرٹری نے ان سے کہا کہ ان کے لئے پی ٹی وی سے بار بار فون آ رہے ہیں۔ فون کیا تو نیوز روم میں کسی نے بتایا کہ ’ایک میجر صاحب آئے ہوئے ہیں اور وہ ہم پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ یہ خبر دوبارہ نہیں چلانی چاہیے۔‘
پرویز رشید کہتے ہیں کہ وہ پھر واپس ٹی وی سٹیشن کے لئے روانہ ہو رہے تھے۔ وہاں سے نکلتے ہوئے ان کی وزیر اعظم سے ملاقات ہوئی جو کہ غالباً صدر مملکت سے ملاقات کر کے واپس آ رہے تھے۔ انہوں نے وزیر اعظم کو بتایا کہ وہ کیوں جا رہے ہیں تو وزیر اعظم نے اپنے سکیورٹی کے انچارج پولیس افسر (پرویز راٹھور) کو بھی ان کے ساتھ کر دیا۔ راستے میں ان کو خیال آیا کہ ملٹری سکیرٹری برگیڈیئر جاوید کو بلانا مناسب ہوگا تو پھر ان کو وائرلیس کے ذریعے مسیج بھجوایا گیا۔ ’’میں نے پرویز راٹھور سے کہا کہ فوجی تو میری اور آپ کی بات کو نہیں مانے گا، بہتر ہے کہ کوئی فوجی افسر ساتھ ہو۔ اس طرح جاوید وہاں آئے اور ہم سے کچھ لمحے بعد پہنچے۔‘‘
کہتے ہیں کہ سٹیشن کے باہر کچھ فوجی کھڑے تھے لیکن انہوں نے ہمیں اندر جانے سے نہیں روکا۔ میں کنٹرول روم میں گیا تو دیکھا کہ یہ نوجوان افسر کھڑا تھا۔ درمیانے قد کا تھا، اور اس کی خشخشی داڑھی تھی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ وہ کیوں آئے ہیں تو انہوں نے کہا کہ میں تو اپنے اوپر والوں کے حکم پر آیا ہوں۔ میں نے کہا کہ میں چیئرمین ہوں، میں نے تو نہیں کہا آپ کو اور میرے سے اوپر تو پھر وزیر اطلاعات مشاہد حسین ہیں اور پھر ان سے اوپر پرائم منسٹر ہیں۔ اور ان کے اوپر پھر اللہ تعالیٰ ہے تو کیا آپ کو انہوں نے بھیجا ہے؟‘‘
وہ بتاتے ہیں کہ پھر برگیڈئر جاوید پہنچ گئے اور وہ مکمل وردی میں تھے۔ پرویز رشید کے مطابق میجر نے ان کو سلیوٹ بھی کیا۔ ان کے مطابق پہلے انکار کرنے کے بعد میجر صاحب نے خود اپنی بندوق حوالے کی۔
پرویز رشید کہتے ہیں کہ پھر وہ سٹوڈیو میں گئے تو پتہ چلا کہ وہ خبر دوبارہ چل گئی تھی۔ انہوں نے فون پر وزیر اعظم کو صورتحال بتائی تو نواز شریف نے ان کو ہدایت کی کہ وہ ادھر ہی رہیں اوریہ خبر چلواتے رہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ پھر یہ ہوا کہ نشریات کاٹ دی گئیں۔ اطلاعات کے مطابق نشریات تقریباً تین گھنٹے تک منقطع رہیں اور رات ساڑھے دس بجے کے قریب بحال کی گئیں۔ جنرل مشرف کی تقریر صبح تین بجے کے قریب چلی اور یہ ریکارڈ کی ہوئی تھی۔)
پرویز رشید کہتے ہیں کہ وہ ڈایریکٹر نیوز کے کمرے میں بیٹھے رہے اور وہاں کھڑکی سے انہوں نے فوجی سپاہیوں کو ٹی وی سٹیشن کی دیواریں پھلانگتے دیکھا۔ وہ کہتے ہیں کہ جب فوجی اندر آئے تو باقی لوگوں کو اس دفتر سے نکال دیا گیا اور دو مسلح سپاہی ان کی نگرانی کرتے رہے۔ پھر ان کے ساتھ کیا ہوا؟ پرویز رشید کہتے ہیں کہ وہ ایک الگ داستان ہے۔
’’یہ ہے پی ٹی وی پر قبضے کی داستان۔ میرے اوپر قبضے کی داستان اس کے بعد شروع ہوتی ہے رات دو بجے کے بعد!‘‘
وزیر اعظم نے ایسا فیصلہ جلد بازی میں کیوں کیا اور کیا پرویز رشید کو اس بارے میں پتہ تھا؟ کیا ان کو اس منصوبہ کی پوری اطلاع تھی؟ ان کا کہنا ہے کہ ان کو تب اس کا علم ہوا جب وزیر اعظم نے ان کو وہ پرچی پکڑا کر کہا کہ یہ خبر چلوا دیں۔ ’’میرے علم میں یہ بات نہیں تھی کہ کیا منصوبہ ہے یا کس طرح فیصلہ کیا گیا لیکن یہ وزیر اعظم کا آئینی حق ہے اور میں تو ایک سیاسی ورکر ہوں۔‘‘
ناکامی کے سوائے اور کوئی راستہ؟
کئی لوگوں کا خیال ہے کہ نواز شریف کا یہ اقدام یوں بے تکا تھا کیونکہ اس کے کامیاب ہونے کے امکانات بہت کم تھے۔ پی ٹی وی کے کچھ اہلکار کہتے ہیں کہ اس اقدام کے بعد ہونے والی کارروائی نے سٹیشن کے تمام عملے کو انتہائی خطرے میں ڈالا۔ مختلف لوگوں نے بتایا ہے کہ اس سارے معاملے پر پی ٹی وی سے رابطہ وزیر اعظم کے صاحبزادے حسین نواز رکھ رہے تھے اور کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ حسین نواز نے اسیا کچھ بھی کہا (ٹی وی کے سینیئر اہلکاروں سے) کہ اس خبر کے چلانے میں جان بھی جاتی ہے تو کوئی بات نہیں، آپ کو شہید کہا جائے گا۔
کئی مبصرین کہتے ہیں کہ نواز شریف کے اس اقدام سے کسی کو کچھ فائدہ نہیں ہوا بلکہ ملک میں سیاسی اور عسکری قیادت میں کشیدگی میں اضافہ ہوا اور اعتماد کا فقدان بہت بڑھا۔ فوج کا مؤقف تھا کہ وزیر اعظم کے اقدام سے فوج کو ٹھیس پہنچی اور یہ عسکری ادارے اور ڈسپلن پر ایک وار تھا۔ جس جنرل کو نواز شریف نے آرمی چیف بنایا تھا انہیں دو سال تک قید تنہائی میں رکھا گیا اور ان کو بغیر مراعات کے فوج سے برطرف کر دیا گیا۔
ذرائع ابلاغ کے کنٹرول کی جنگ
سنہ 1999 کے اس واقعے سے یہ اچھی طرح واضح ہوتا ہے کہ اقتدار کی جنگ میں ذرائع ابلاغ کی کتنی زیادہ اہمیت ہوتی ہے۔ پی ٹی وی سٹیشن میں خبروں کی یہ جنگ نجی ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا کی آمد سے پہلے ہوئی لیکن اب یہ جنگ ذرا مختلف طریقوں سے لڑی جا رہی ہے، جو کہ اتنے واضح نہیں ہیں۔ لیکن یہ جنگ اب بھی جاری ہے۔