ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ انکی یا میاں صاحب سے کسی کی ملاقات نہیں ہوئی مگر انہیں بالواسطہ کئی پیغامات موصول ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی رہنماوں کو ملاقاتوں سے اس لئےروکا کیوں کہ کئی ذاتی میٹینگز کو بھی اور رنگ دیا جاتا تھا۔ اور زبیر صاحب کی میٹنگ پر بھی اسی لئے خاموش تھے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ انکے آرمی چیف سے چالیس سالہ پرانے تعلقات ہیں۔
نواز شریف کی واپسی کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا میاں نواز شریف دل کی سرجری کروانے کے بعد واپس ضرور آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف یا انکی بیرونی پر کسی سے بات چیت نہیں ہوئی اور نا ہوگی بلکہ اب صرف عوم کے ساتھ بات ہوگی کیونکہ جمہوریت میں سب سے بڑے سٹیک ہولڈرعوام ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف کی لڑائی اسٹیبلشمنٹ سے نہیں بلکہ اداروں کے سیاسی کردار پر ہے۔ انکا ماننا ہے کہ اداروں کا آئینی کردار ادا کرنا چاہیئے۔ انکا بیانیہ عوام کا بیانیہ ہے اور آئین کا بیانیہ ہے۔
دھاندلی کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ان انتخابات میں دھاندلی سب سے زیادہ ہوئی جسے پلان کیا گیا۔ سب سے پہلے پری پول دھاندلی ہوئی جب ن لیگ کے امیدواروں کو خریدا گیا، توڑا گیا ایک پارٹی میں شامل کیا گیا اور اس کے بعد الیکشن والے دن کھلم کھلی دھاندلی ہوئی۔
انکا کہنا تھا کہ میاں صاحب نے اپنے خطاب میں جو سوال پوچھے وہ غداری نہیں ، بلکہ وہ سوال ہیں جن کی وجہ سے پاکستان آج یہاں پہنچا۔ اگر وہ غدار ہیں تو سب عوام غدار ہیں۔ انہوں نے عوام کی خدمت کی اور ساری دنیا کے پریشرکے باوجود ایٹمی دھماکے کئے۔ انہوں نے اداروں کو مضبوط کیا اور ملک کا پیٹ کاٹ کر پاکستان کا خزانہ ان اداروں پہ لگایا۔ ان پر غداری کا مقدمہ مذاق ہے کیونکہ نا انکا ایسا کردار ہے اور نا کوئی ان پر یہ الزام ثابت کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کو بھی معلوم ہے کہ میاں صاحب پر غداری کا مقدمہ وہ ثابت نہیں کر سکتے اسی لئے وہ چھپ رہیں ہیں حالانکہ ثابت ہو چکا ہے کہ وہ مقدمہ انکے پارٹی کے کارکن نے کروایا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انکا کہنا تھا کہ مسلم لیگ متحد ہے اور میاں صاحب کے بیانئیے کے ساتھ کھڑی ہے۔ یہ صرف میاں نواز شریف کا نہیں بلکہ آئین کا بیانیہ ہے ۔ اگر کوئی اس بیانیئے سے مکمل اتفاق نہیں کرتا تو یہ جمہوریت ہے۔ پارٹی میں نظرئیے کا اختلاف نہیں بلکہ اپروچ کا اختلاف ہے یا کچھ لوگ مجبوریاںکی وجہ سے چپ ہیں مگر پارٹی کا ہر کارکن میاں نواز شریف کے بیانئیے کا ساتھ دے رہا ہے۔
میاں شہباز شریف سے تعلق سوال پر انکا کہنا تھا کہ انکے میاں شہباز شریف کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں اور وہ انکے والد کی طرح ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ش اور ن صرف ہمارے مخالفین کی خواہش ہوسکتی ہے اوراختلاف کی یہ باتیں گزشتہ تیس سالوں سے ہورہی ہیں مگران میں صداقت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہباز شریف کی اپروچ فرق ہے اور ہمیشہ سے ہی فرق رہی ہے۔ وہ اپنی رائے ضرور دیتے ہیں مگر اپنے بڑے بھائی نواز شریف کی ہر آواز پر لبیک کہتے ہیں اور میاں صاحب کی ہر بات کو حکم سمجھ کر مانتے ہیں۔ مریم نواز نے کہا کہ میرا اپنے چچا شہباز شریف سے کسی قسم کا اختلاف نہیں صرف اپروچ کا اختلاف ہے۔ انہیں جیل بھیجنے کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے بھائی کے بیانئیے کو سپورٹ کیا۔ کیونکہ اختلاف پیداکرنے کی حکومتی توقعات پوری نہیں ہوئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ شریف ہمیشہ ایک تھے، ہیں اور رہیں گے۔
جب ان سے سوال کیا گیا کہ میاں نواز شریف نے آرمی چیف کی توسیع والے سوال کا جواب کیوں نہیں دیا تو انکا کہنا تھا کہ انکو پتہ ہے کہ کون سی بات کہاں کرنی ہے۔ اس لئے انہیں جب ضرورت محسوس ہوگی وہ اس سوال کا جواب بھی ضرور دیں گے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ پارٹی میں سینئیر عہدیدراروں کے باوجود وہ پارٹی کو کیوں لیڈ کر رہی ہیں تو انکا کہنا تھا کہ سب اپنا اپنا کام کر رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ مجھ پر اور نواز شریف پر کرپشن کا کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا تاہم انہیں اقامے پر نکالا گیا اور سزا دی گئی۔ جج ارشد ملک کی ویڈیو پورے پاکستان نے دیکھی کہ کیسے نواز شریف کو انتقام کا نشانہ بنایا گیا۔
مسلم لیگ رہنماء نے کہا کہ عمران خان کو تابعداری کی وجہ سے سیلیکٹ کر کے لایا گیا۔ اسے یہ فکر نہیں کہ مہنگائی بڑھ رہی ہے، موٹروے واقعہ کیسے دیکھنا ہے؟ خارجہ پالیسی کیسے چلانی ہے، انکی ناہلی کی وجہ سے کشمیر پر بھارت نے قبضہ کر لیا مگر وہ یہ سب دیکھنے اور سوچنے کی بجائے صرف یہ دیکھتے اور سوچتے ہیں کہ نواز شریف کو کیسے روکنا ہے اور مولانا فضل الرحمن کو کیسے کنٹرول کرنا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس نا اہل حکومت نے ملک کا کیا حال کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم متحد ہے ، انکی اور بلاول کی بہت اچھی بات چیت ہے اسی لئے جنوری تک حکومت کا تختہ الٹنا ناگزیر ہو چکا ہے۔ استعفوں کے سوال پر انکا کہنا تھا کہ وہ استعفے ضرور دیں گے۔ اور جنوری سے پہلے حکومت کا خاتمہ ہو جائے گا۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ یہ جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کے مترادف نہیں تو انکا کہنا تھا کہ وہ اس حکومت کو آئینی حکومت تسلیم ہی نہیں کرتیں۔ اور نا ہی یہ آئینی اور منتخب حکومت ہے۔ انکا کہنا تھا کہ چند اداروں نے ایک نا اہل انسان کو عوام پہ مسلط کیا ہے لہذا وہ عمران خان کو منتخب وزیر اعظم تسلیم ہی نہیں کرتیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ اداروں کو پیغام دینا چاہتی ہیں کہ وہ سیاست سے دور رہیں اور سیاسی معاملات میں مداخلت نا کریں۔ وہ مقدس ادارے ہیں اور اپنا تقدس برقرار رکھیں۔
اینکر عاصمہ شیرازی نے ان سے آخری سوال پوچھا کہ مریم نواز خاموش تو نہیں ہوں گی؟ جس پر انکا کہنا تھا کہ مریم نواز جو کر سکتی ہے وہ کرے گی اور انہیں خاموش کرنے والے خود خاموش ہو جائیں گے۔