رحمت العالمین اتھارٹی کا قیام! کیا وزیراعظم کا مذہبی ووٹ بینک کی طرف ایک قدم ہے؟

01:17 PM, 12 Oct, 2021

عبداللہ مومند
آج سے تقریباً آٹھ دن قبل انصار عباسی نے جنگ اخبار میں "عمران خان پریشان کیوں؟ کے عنوان سے لکھے گئے ایک کالم میں دعویٰ کیا تھا کہ وزیراعظم عمران خان ان دنوں کافی پریشان ہیں۔ یہ بات پہلے مجھے چند علمائے کرام سے معلوم ہوئی جنہوں نے وزیراعظم کے حالیہ دورہ کراچی کے دوران اُن سے ملاقات کی تھی۔

بعد میں گزشتہ ہفتہ کے دوران اسلام آباد میں اپنی اسی پریشانی کے حوالے سے وزیراعظم نے دو اجلاسوں میں شرکت کی۔ انصار عباسی کے مطابق اس پریشانی کا تعلق ملک کی معیشت اور سیاست سے نہیں بلکہ روز بروز بڑھتے معاشرتی بگاڑ سے ہے جس کے نئے نئے ڈرائونے روپ ہمارے سامنے آ رہے ہیں اور جس کی وجہ سے معاشرہ بڑی تیزی سے تنزلی کا شکار ہو رہا ہے۔

انصار عباسی نے لکھا تھا کہ وزیراعظم کی اس پریشانی سے ممکنہ طور پر ایک اچھا کام ہونے جا رہا ہے جس کی اس معاشرے کو اشد ضرورت ہے اور وہ ہے تربیت اور کردار سازی۔ مجھے بتایا گیا کہ عمران خان نے گزشتہ ہفتے اسی موضوع پر دو اجلاس کئے جن میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ معاشرے کی تربیت اور کردار سازی کے لیے جنگی بنیادوں پر تمام ممکنہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

انصار عباسی کے مطابق اس سلسلے میں وزیراعظم بارہ ربیع الاول کے روز ایک نیا محکمہ یا اتھارٹی بنانے کا اعلان کر سکتے ہیں جس کا مقصد معاشرے کی کردار سازی اور تربیت کے لیے پالیسی بنانا اور اُس پر عملدرآمد کروانا ہوگا تاکہ ہم ملک میں بڑھتی ہوئی معاشرتی خرابیوں اور برائیوں سے اسے پاک کر سکیں۔

وزیراعظم عمران خان نے کچھ روز پہلے رحمت العالمینﷺ اتھارٹی بنانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ اتھارٹی عوام کو حضرت محمد ﷺ کی سیرت مبارک کے مطابق زندگی گزارنے کی تعلیم دے گی جبکہ اس کا مقصد اسلام پر مزید ریسرچ کرنا بھی ہوگا۔

وزیراعظم نے مزید کہا تھا کہ میں اپنی زندگی سے شروع کروں گا کیونکہ جہاں میں آج ہوں ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا، بڑا سوچا کہ اس پر بات کروں یا نہ کروں؟ لیکن پھر مجھے بشریٰ بی بی نے کہا کہ ضرور بات کریں۔

انھوں نے کہا تھا کہ میری تعلیم ایچیسن میں ہوئی جہاں ہمارے رول ماڈل کوئی اور تھے جو ہمیں کہا گیا تھا سیدھا راستہ ہے اور جو رول ماڈل تھے، اس میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔

لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا ایسی اتھارٹیز بنانے سے سماج کو کوئی فائدہ ہوگا؟ سماجی ماہرین کے مطابق فوجی آمر ضیاء الحق نے بھی سماج سے برائیاں ختم کرنے کے لئے شہریوں کو کوڑے لگائے اور بہت ساری پابندیاں عائد کی لیکن اس کے بھی کوئی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آسکے۔

مصنف اور سماجی علوم پر نظر رکھنے والے پروفیسر ڈاکٹر خادم حسین وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اس نئی اتھارٹی کو مذہبی ووٹ بینک کی طرف ایک قدم اور گورنننس اور انتظامی ناکامی کی طور پر دیکھتے ہیں۔

پروفیسر ڈاکٹر خادم حسین نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ ماضی میں بھی ایسی کوششیں ہوئی لیکن کوئی خاطر خواہ تبدیلی سامنے نہیں آئی کیونکہ وہ کوششیں سماجی اصولوں کے خلاف اور طاقت کے زریعے نافذ کرنے کی کوشش کی۔

پروفیسر خادم حسین کہتے ہیں کہ پاکستان آئینی طور پر ایک اسلامی ریاست ہے جہاں کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ ملک میں اسلامی نظریاتی کونسل سمیت درجنوں دیگر مذہبی ادارے بھی موجود ہے، ان اداروں کا منشور بھی وہی ہے جو وزیراعظم کی اعلان کردہ اتھارٹی کا ہے، اگر اس سے کوئی تبدیلی نہیں آئی تو اس کا مطلب یہی ہے کہ اس نئے ادارے سے بھی کوئی تبدیلی نہیں آئے گی، بس کچھ لوگوں کو نوکری مل جائے گی اور کچھ لوگ برسر روزگار ہوجائینگے۔

خادم حسین سمجھتے ہیں کہ نئی اتھارٹی کے قیام کا مطلب یہی ہے کہ جو سرکاری ادارے پہلے سے موجود ہیں وہ کام نہیں کر پا رہے ہیں اور بظاہر ملک انتظامی اور گورننس کی بحران کی جانب گامزن ہے۔

ایک سوال کے جواب میں پروفیسر خادم حسین نے کہا کہ اصول یہ ہے کہ اگر آپ نے سماج میں کوئی تبدیلی لانی ہے تو سب سے پہلے وہ خود پر لاگو کریں لیکن وزیراعظم اور ان کی کابینہ میں کتنے لوگ ہے جو سیرت النبی کے اصولوں کے عملی نمونے ہیں؟

خادم حسین سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد جو ماحول بنایا گیا، اب یہاں پاکستان میں بھی ایسا ماحول بنایا جا رہا ہے جہاں مذہب کو سیاست کے لئے استعمال کرکے ووٹ بینک بڑھایا جائے مگر دنیا بشمول پاکستان میں جب بھی مذہب کو سیاست کے طور پر استعمال کیا گیا، ان کے نتائج خطرناک رہے۔

جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سینیٹر مولانا عطاء الرحمن سمجھتے ہیں کہ موجودہ حکومت ہر محاذ پر ناکامی کا شکار ہے، ان کو سمجھ نہیں آ رہی ہے کہ کیسے ان ناکامیوں کو چھپا سکے، اس لئے اب وزیراعظم اس طرح کی اتھارٹیز کے قیام کا اعلان کر رہے ہیں تاکہ لوگوں کو ذہنوں کو تبدیل کیا جا سکے لیکن ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔

پیپلز کمیشن فار مناریٹی رائٹس (پی سی ایم آر) کے چیئرمین اور تعلیم دان پیٹر جیکب نے وزیراعظم کے حالیہ اتھارٹی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ملک کی تاریخ میں کئی بار ایسی کوششیں اور تجربے کئے گئے مگر اس کے کوئی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے۔

انھوں نے مزید کہا کہ یہ ایک جمہوری ملک ہے اور جب بھی کوئی قدم اٹھانا ہوتا ہے تو اس پر گفت وشنید ضروری ہوتی ہے اور ماہرین کے معاونت سے کسی نئی پیشرفت کی طرف جانا ہوتا ہے لیکن یہاں ایسے لگتا ہے کہ وزیراعظم کے ذہن میں کوئی خیال آیا اور فوری طور پر اس کا اعلان کردیا، بغیر اس حقیقت کو مدنظر رکھتے کہ اس کو کیسے چلانا ہے اور اس کے فوائد کیا ہونگے؟

پیٹر جیکب نے مزید کہا کہ موجودہ حکومت نے پیغام پاکستان کے نام سے ایک نیا پراجیکٹ شروع کیا تھا، مگر اب کوئی نہیں جانتا کہ اس کے کیا فوائد سامنے آئے ہیں اور وہ اتھارٹی کام بھی کررہی ہے کہ نہیں؟

ان کا کہنا تھا کہ ملک میں اسلامی نظریاتی کونسل، وزارت مذہبی امور سمیت دیگر اسلامی ادارے موجود ہیں لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا وہ ادارے اور وزارتیں فعال نہیں کہ ایک نیا ادارہ بنایا گیا۔

وزیراعظم کی جانب سے تعلیمی نصاب کی ریگولیٹری کرنے کے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک کے تعلیمی نصاب پہلے سے اسلامی ہے لیکن مجھے سمجھ نہیں آتی کہ اس میں اور کیا شامل کرنا ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ اسلام ایک مقدس مذہب ہے اور ان کا سیاست کے لئے استعمال کرنے سے مزید مسائل سامنے آئینگے اور ملک اور سماج کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
مزیدخبریں