وزیر اعظم پاکستان عمران خان گذشتہ قریباً تین ہفتوں کے دوران کئی غیر ملکی میڈیا چینلز کو دیے گئے انٹرویوز میں مسلسل ایک ہی بات دہراتے رہے ہیں کہ افغان طالبان کو اس وجہ سے کامیابی ملی کیونکہ وہ پشتونوں کی قوم پرست تحریک تھی اور عام پشتونوں نے بھی اس وجہ سے ان کی حمایت کر دی تھی۔
گذشتہ روز عمران خان نے ایک مرتبہ پھر مڈل ایسٹ آئی نامی برطانوی ویب سائیٹ کو دیے گئے انٹرویو میں وہی پرانی بات دہراتے ہوئے کہا کہ سرحد کے اس پار پشتون اس وجہ سے ریاست پاکستان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے کیونکہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ دیا تھا لیکن اب جب کہ ہم نے امریکہ سے جان چھڑا لی ہے تو یہاں پر حالات بہتر ہو رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہمیں یعنی پاکستان کو سہولت کار کہا گیا، اس وجہ سے ہمیں نشانہ بنایا گیا اور شدت پسندوں نے خود کو پاکستانی طالبان کہنا شروع کر دیا۔ جب ہم امریکہ کے اتحادی نہیں تھے تو یہاں طالبان کا کوئی وجود نہیں تھا لیکن پھر ایک وقت آیا جب ٹی ٹی پی پچاس مختلف تنظیموں پر مشتمل تنظیم بن گئی۔’
اگر عمران خان صاحب کی باتوں کا فیکٹ چیک کیا جائے تو ان کی طرف سے پاکستانی اور افغان طالبان کی تحریک کے متعلق کہی جانے والی تمام باتیں غلط ثابت ہوتی ہیں۔
اول تو پاکستان میں طالبان کی سوچ کے حامل افراد اس وقت سے ہیں جب افغانستان میں طالبان تحریک کا وجود عمل میں نہیں آیا تھا۔
90 کے عشرے کے آخری سالوں میں شاید پاکستان میں سب سے پہلے مولانا صوفی محمد نے ملاکنڈ ڈویژن میں شرعی نظام عدل کے نفاذ کے لئے مسلح جدوجہد کا آغاز کیا اور تحریک نفاذ شریعتی محمدی کے نام سے ایک باقاعدہ تحریک کی بنیاد ڈالی۔ مولانا صوفی محمد بنیادی طورپر جماعت اسلامی سے تعلق رکھتے تھے اور پشتون بھی نہیں تھے بلکہ ان کا تعلق تاجک قبیلے سے تھا۔
پھر 90 کے عشرے میں اسلم فاروقی نامی دوسرے سخت گیر مؤقف کے حامل شدت پسند مذہبی رہنما تھے جنہوں نے اس وقت کی اورکزئی ایجنسی میں شریعت کے نفاذ کا اعلان کیا تھا۔ اسلم فاروقی بعد میں تحریک طالبان کا حصہ بنے اور پھر 2015 میں وہ افغانستان میں داعش خراسان میں شامل ہوئے اور تنظیم کے امیر کے عہدے تک جا پہنچے۔ قریباً ڈیڑھ سال قبل وہ افغانستان میں افغان انٹلیجنس ادارے این ڈی ایس کی طرف سے گرفتار کیے گئے جس کے بعد سے وہ بدستور لاپتہ ہیں۔
پاکستان میں شدت پسند تنظیموں کی بنیاد خود حکومت اور طاقتور اداروں کی طرف سے 80 کی دہائی میں رکھی گئی جب سرد جنگ کے زمانے میں ہم روس کے خلاف امریکہ کے اتحادی بنے۔ پاکستان کے ممتاز سکالر، صحافی اور افغانستان پر شہرۂ آفاق کتاب کے مصنف احمد رشید لکھتے ہیں کہ روس کے خلاف جنگ کو دوام دینے کے لئے پاکستان میں ہزاروں دینی مدرسوں کا قیام عمل میں لایا گیا جہاں ہزاروں لوگوں کی افغانستان میں ’جہاد’ کے لئے نظریاتی اور مسلح تربیت دی گئی۔
جب 80 کے عشرے کے اختتام پر روسی افواج کی شکست کے بعد افغانستان سے انخلا ہوا تو جیت کے جذبے سے سرشار یہ ’جہادی فورس’ اس وقت تک مکمل جوان ہو چکی تھی اور یہاں سے پھر وہ مختلف شدت پسند تنظیموں کے ساتھ منسلک ہوئے۔
تحریک طالبان پاکستان کے وجود سے قبل بیشتر پاکستانی جہادی کسی نہ کسی شکل میں القاعدہ یا افغان طالبان کی تحریک سے منسلک رہے تھے۔ ٹی ٹی پی کے امیر مفتی نور ولی محسود نے اپنی کتاب ’ انقلاب محسود’ میں لکھا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے قیام سے قبل حلقہ محسود کے نام سے وزیرستان میں طالبان کی ایک تنظیم موجود تھی جس کی سربراہی بیت اللہ محسود کے سپرد کی گئی تھی۔ یہ حلقہ القاعدہ اور افغان طالبان کی خدمت پر مامور تھا۔ اس کے علاوہ نیک محمد اور بیت اللہ محسود طالبان کی پہلی حکومت کا حصہ بھی رہے۔
خان صاحب کی اس بات کا نہ سر ہے اور نہ پیر کہ طالبان تحریک اس وجہ سے کامیاب ہوئی کیونکہ سرحد کے دونوں اطراف یہ پشتونوں کی قوم پرست تحریک کے طورپر وجود میں آئی اور اسے مقبول حمایت ملی۔
افغانستان میں اگر 90 کے عشرے میں افغان طالبان اٹھے بھی تو اس وقت وہاں طوائف الملوکی اور افرا تفری کا ماحول تھا، وہاں صرف پشتونوں کے حقوق سلب نہیں ہو رہے تھے کہ جس کے لئے پشتون طالبان سامنے آئے بلکہ شورش زدہ ملک کی تمام قومیتیں اس وقت کے جہادیوں جنہیں ’ٹوپک مار’ یا بندوقوں والے کہا جاتا تھا، کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے تھے۔ پھر جب طالبان کی حکومت بنی تو اس کی بنیاد کسی قومیت کی بنیاد پر نہیں تھی بلکہ اسلامی نظریے کے تحت نظام سلطنت چلانا ان کا پہلا مقصد تھا۔
افغانستان کے اندر نسلی حساسیت ہمیشہ سے زیادہ رہی ہے لیکن وہاں کے پشتونوں نے کبھی طالبان کو پشتون رہنماؤں کے طورپر تسلیم نہیں کیا۔
پھر جب دو ہزار سات میں تحریک طالبان پاکستان کی بنیاد رکھی گئی تو ان کا نظریہ بھی خالصتاً اسلامی تھا۔ پاکستانی طالبان ہمیشہ سے ملک میں نظام کی تبدیلی کی بات کرتے رہے ہیں، انہوں نے کبھی پشتونوں کے لئے الگ وطن کا مطالبہ نہیں کیا۔ مفتی نور ولی نے حال ہی میں سی این این کو دیے گئے انٹرویو میں قبائلی علاقوں کی آزادی کی بات ضرور کی ہے لیکن وہ ایک محدود خطہ کی بات کرتا ہے، کبھی انہوں نے قوم کی حیثیت سے پشتونوں کے حق کی بات نہیں کی۔
ٹی ٹی پی نے عمران خان کے بیان پر اپنا مفصل ردعمل بھی جاری کیا ہے اور وزیراعظم کے بیان کو کم علمی اور غیر سنجیدگی سے تعبیر کیا ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ تحریک ملک میں شرعی نظام کی خواہاں ایک جماعت ہے جو قومی و لسانی عصبیت سے بالاتر ہے۔
2004 سے جب اس وقت کے قبائلی علاقوں میں آپریشنوں کا آغاز ہوا تو حکومت کی طرف سے اپنے لوگوں پر بمباریاں کی گئیں جس میں بڑے پیمانے پر عام شہریوں کے گھر تباہ ہوئے، بے گناہ بچوں اور خواتین کی ہلاکتیں ہوئیں جس سے قبائل میں شدید اشتعال اور غم و غصہ پیدا ہوا اور شاید اس کی وجہ سے کچھ قبائل تحریک طالبان کی طرف مائل ہوئے لیکن یہ بڑے پیمانے پر نہیں ہوا۔ بدلے کی آگ میں جلنے والے قبائلی نوجوان اس وقت حکومتی کارروائیوں کی مخالفت میں طالبان سے مل گئے تھے جس کی وجہ سے ان علاقوں میں کچھ وقت کے لئے شدت پسندی میں اضافہ بھی ہوا۔
دوسری طرف قبائلی علاقوں میں پانچ سو کے قریب قبائلی مشران اور سرداروں کو قتل کیا جا چکا ہے، مسجدوں، ہجروں اور یہاں تک کہ جنازوں پر حملے کیے گئے۔ پشتون قوم پرست جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے ایک ہزار کے قریب کارکن ہلاک ہوئے جن میں پارٹی کے چوٹی کے رہنما، وزرا اور ایم پی ایز شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بم اور خودکش حملوں میں ہزاروں عام افراد لقہ اجل بنے، صرف ایک آرمی پبلک سکول پشاور پر ہونے والے حملے میں140 کے لگ بھگ طلبہ اور سٹاف کے افراد مارے گئے۔ فوجی کارروائیوں اور شدت پسند حملوں کے باعث لاکھوں افراد گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔
عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان درست کہتے ہیں کہ خان صاحب پشتونوں کو عالمی سطح پر دہشت گرد قرار دینا چاہتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ پشتون دہشت گرد نہیں بلکہ دہشت گردی کے متاثرین ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ پشتونوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جو نقصانات اٹھائے شاید ہی کسی قوم نے برداشت کیے ہوں۔ لیکن خان صاحب نے کبھی ان قربانیوں کا اس طرح ذکر نہیں جس طرح اس کی ضرورت ہے۔