عمران خان نا اہل بھی ہوں گے اور جیل بھی جائیں گے، ان کے جرائم قابل معافی نہیں

01:45 PM, 12 Oct, 2022

اصلاح الدین مغل
کہتے ہیں کہ سیاست میں کوئی چیز حرف آخر نہیں ہوتی اور یہ بات بہت حد تک درست بھی ہے۔ کیا 6 ماہ قبل کوئی سوچ سکتا تھا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف پر لگی پابندیاں ختم ہو جائیں گی؟ کون کہہ سکتا تھا کہ مریم نواز کے خلاف کیس نہ صرف ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جائے گا بلکہ ان کا پاسپورٹ بھی واپس کر دیا جائے گا اور وہ اپنے والد سے ملنے لندن بھی چلی جائیں گی؟ کس کے گمان میں تھا کہ نواز شریف پر میڈیا اس قدر مہربان ہو جائے گا کہ وہ لندن میں بیٹھ کر پریس کانفرنس کریں گے اور یہ پریس کانفرنس پاکستان کے تمام ٹیلی ویژن چینلوں پر دکھائی جائے گی؟

کیا کسی کے خواب و خیال میں بھی تھا کہ اپنے لائے ہوئے لاڈلے عمران خان سے ہمارے مہربان اس قدر جلد مایوس و بدظن ہو جائیں گے؟ کسی نے سوچا تھا کہ لاڈلا اپنے محسنوں پر اس قدر رکیک حملے کرے گا؟ کسی کے گمان میں تھا کہ لاڈلے کی آڈیوز لیک ہونا شروع ہو جائیں گی؟ لیکن یہ تمام مناظر ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ حالات میں یہ تبدیلی کیسے آئی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف دونوں ہی 'مہربانوں' کی معرفت میدان سیاست میں وارد ہوئے تھے لیکن اپنی شخصی اور انتظامی صلاحیتوں کے باعث اس میدان کے سکندر ٹھہرے۔ دونوں کی پاکستان کے لیے خدمات کا اعتراف نہ صرف پاکستان کے عوام کرتے ہیں بلکہ بین الاقوامی برادری میں بھی ان کی صلاحیتوں کا اعتراف کیا جاتا ہے۔ مذکورہ دونوں قائدین چونکہ عوامی نمائندے تھے اس لیے وہ کئی معاملات میں مہربانوں سے اختلاف کر جاتے تھے۔ یہی ایک بات تھی جو ان مہربانوں کو گراں گزرتی تھی۔ اس لیے انہوں نے سوچا کہ ایک نیا بت تراشا جائے جو عوام میں تھوڑا مقبول بھی ہو اور ہماری تابعداری بھی کرے۔

بھٹو اور نواز شریف کی عوامی پزیرائی دیکھ کر ہمارے مہربان اس خوش فہمی کا شکار ہو گئے تھے کہ وہ جس پر بھی ہاتھ رکھ دیں گے عوام میں بھی اسے پزیرائی حاصل ہو جائے گی۔ اسی لیے لاڈلے کو لانے کا فیصلہ کیا گیا اور 'پراجیکٹ عمران خان' پر تن دہی سے کام شروع کر دیا گیا۔ اس پراجیکٹ میں ہمیشہ سے مہربانوں کی باجگزار رہنے والی عدلیہ نے بھرپور حصہ ڈالا۔ پراجیکٹ کو کامیاب بنانے کے لیے جو جو حربے استعمال کئے گئے، پاکستان کے عوام ان سے بخوبی واقف ہیں اس لیے ہم اصل موضوع پہ بات کرتے ہیں۔

عمران کو لانے والے یہ بات بھول گئے کہ عمران کی شہرت صرف کرکٹ کی وجہ سے نہیں تھی بلکہ ان کی زندگی کی رنگین داستانیں امریکہ سے لے کر برطانیہ اور بھارت سے لے کر پاکستان تک پھیلی ہوئی تھیں لیکن نواز شریف سے جان چھڑانے کا یہی ایک فارمولہ ہمارے مہربانوں کی سمجھ میں آیا۔

عمران خان نے چونکہ کرکٹ کھیلنے اور چندہ جمع کرنے کے علاوہ زندگی میں اور کوئی کام کیا ہی نہیں تھا، لہٰذا وزیراعظم بننے کے بعد خان صاحب انہی مشاغل میں مزید تن دہی سے مصروف ہو گئے جن کی داستانیں دنیا بھر میں پھیلی ہوئی تھیں۔ پرائم منسٹر ہاؤس کا چوتھا فلور ایسے ہی تو مشہور نہیں ہو گیا تھا۔ لوٹ مار کے لیے مالم جبہ، بلین ٹری سونامی، ہیلی کاپٹر کیس، بی آر ٹی پراجیکٹ، راولپنڈی رنگ روڈ، منی لانڈرنگ کیس اور توشہ خانہ کیس ہی کافی ہیں اور وہ ان کیسز میں سزا سے بچ نہیں سکتے۔

عمران خان کے بارے میں میرا پختہ یقین ہے کہ موصوف کسی غیر ملکی ایجنڈے پر کارفرما تھے ورنہ ایک ایسا ملک جو گوناگوں مسائل کا شکار ہو، کیا اس کا وزیراعظم اپنے دوست ممالک کو ناراض کر سکتا ہے؟ عمران خان کے دور میں سعودی عرب، ترکی، چین اور امریکہ سمیت پاکستان کے سارے ہی دوست ممالک پاکستان سے ناراض ہو گئے۔ کیا کوئی وزیراعظم آئی ایم ایف سے معاہدہ کر کے اس کی خلاف ورزی کر سکتا ہے؟ کیا کوئی محب وطن رہنما آئی ایم ایف سے ملنے والے قرض کو رکوانے کی کوشش کر سکتا ہے؟ کیا کوئی وزیراعظم منی لانڈرنگ کر سکتا ہے؟ کیا کوئی وزیراعظم توشہ خانہ کی صفائی کر سکتا ہے؟

اپنے لائے ہوئے لاڈلے کے کرتوت دیکھ کر مہربان سر پیٹ کر رہ گئے کیونکہ ان کے دور میں بڑھتی بے روزگاری اور روپے کی قدر میں ہونے والی کمی کی وجہ سے اشیائے خور و نوش کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں۔ اس کے علاوہ بجلی اور گیس کے آسمان سے باتیں کرتے بل عوام کی قوت برداشت سے باہر ہو رہے تھے اور عوام کھلے عام عمران خان کو لانے والوں کا نام لے کر ان پر تبرہ بھیج رہے تھے۔ یہ صورت حال مہربانوں کے لیے شدید تشویش کا باعث بن گئی لہٰذا انہوں نے فیصلہ کیا کہ اب ہم سیاست میں دخل اندازی نہیں کریں گے۔

عمرانی حکومت کا خاتمہ تو 2019 کے اواخر تک طے تھا لیکن شومئی قسمت کہ ساری دنیا کی طرح پاکستان کو بھی کورونا کی وبا نے آ دبوچا اور یوں عمران حکومت کو 2 سال مزید مل گئے۔ کورونا کے خاتمہ کے ساتھ ہی حزب اختلاف نے عمران خان حکومت کے اتحادیوں سے رابطے شروع کر دیئے۔ اتحادی کیونکہ پہلے ہی ناراض تھے اس لیے کھل کر سامنے آ گئے اور یوں تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں عمرانی حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔

اس وقت ملک کو بے شمار مسائل کا سامنا ہے۔ اسی لیے پھر انہی تجربہ کار لوگوں کی ضرورت پڑ گئی جنہیں پراجیکٹ عمران خان کے تحت اقتدار سے نکالا گیا تھا۔ اسحاق ڈار کا لندن سے پاکستان آ کر وزیر خزانہ کا قلمدان سنبھانا، مریم نواز کا کیس سے بری ہو کر لندن جانا، نواز شریف کی لندن میں کی گئی پریس کانفرنس کا پاکستان کے تمام ٹی وی چینلوں پر دکھایا جانا اور عمران خان کی آڈیو لیکس ہونا؛ یہ سب باتیں واضح اشارہ ہیں کہ خان صاحب کا کھیل اب ہمیشہ کے لیے ختم ہونے والا ہے۔ خان صاحب نا اہل بھی ہوں گے اور جیل بھی جائیں گے کیونکہ انہوں نے جو کچھ ملک اور ملکی اداروں کے ساتھ کیا ہے وہ ہرگز قابل معافی نہیں ہے۔

؎ وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
مزیدخبریں