گوجرانوالہ؛ پولیس نے احمدیوں کی 2 قدیم عبادت گاہوں کے مینار مسمار کر دیے

جماعت احمدیہ پاکستان کے ترجمان عامر محمود نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا، ماہ اکتوبر میں یہ چوتھا واقعہ ہے کہ پولیس نے احمدی عبادت گاہوں کے مینار مسمار کر دیے۔ کیا پولیس کا صرف یہ کام ہے کہ وہ مذہبی انتہاپسندوں کی خوشنودی کیلئے محب وطن احمدیوں کے انسانی حقوق غصب کرے؟

03:05 PM, 12 Oct, 2024

نیوز ڈیسک

گوجرانوالہ پولیس نے 10 اور 11 اکتوبر کی رات کو موہلنکے چٹھہ اور گکھڑ منڈی میں جماعت احمدیہ کی 2 عبادت گاہوں کے مینار مسمار کر دیے۔

تفصیلات کے مطابق پولیس کو جماعت احمدیہ کی جانب سے آگاہ کیا گیا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے 10 اپریل 2023 کو عمران حمید بنام سرکار کے فیصلے میں پیرا نمبر 16 میں واضح طور پر قرار دیا ہے کہ جو احمدی عبادت گاہیں 1984 سے قبل کی تعمیر شدہ ہیں ان کے مینار اور محراب وغیرہ کو مسمار نہیں کیا جا سکتا۔ اس فیصلے کی مصدقہ نقول پولیس کو پیش کرنے کے باوجود پولیس نے رات کی تاریکی میں عبادت گاہوں کے مینار گرا دیے۔

موہلنکے چٹھہ میں جماعت احمدیہ کی عبادت گاہ 1954 میں تعمیر ہوئی تھی اوراس وقت مینار بنائے گئے تھے۔ 10 اور 11 اکتوبر کی درمیانی شب 2:15 کے قریب 6 پولیس اہلکار تھانہ احمد نگر چٹھہ سے آئے۔ پولیس اہلکاروں نے سیڑھی کے ذریعے چھت پر چڑھ کر عبادت گاہ کے میناروں کو گرانا شروع کر دیا اور مینار گرا کر ملبہ ٹرالی میں ڈال کر اپنے ساتھ لے گئے۔ اس دوران پولیس نے جماعت احمدیہ کے ایک مقامی عہدیدار کو گاڑی میں بٹھا کر ان کا موبائل اپنے قبضہ میں لے لیا اور کارروائی مکمل کرنے کے بعد انہیں چھوڑا۔

دوسرے واقعہ میں گکھڑ منڈی میں واقع عبادت گاہ جو 1953 میں تعمیر ہوئی تھی اور اسی وقت اس کے مینار بنائے گئے تھے،اس کے مینار گرانے کے لئے 10 اور 11 اکتوبر کی درمیانی شب 1:15 بجے کے قریب سکیورٹی انچارج گکھڑمنڈی 10 سے 15 پولیس اہلکاروں کے ساتھ آیا اور جماعت کے مقامی عہدیدار سے عبادت گاہ کی چابی مانگی۔ انکار پر پولیس اہلکار سیڑھی کی مدد سے بیت الذکر کی چھت پر پردہ توڑ کر چڑھ گئے۔ کچھ پولیس اہلکار عبادت گاہ کے مین ہال سے ملحقہ کمرے کا دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوئے اور کرسیاں نکال کر صحن میں بیٹھ گئے۔ انہوں نے سکیورٹی کیمروں کو توڑ دیا اور عبادت گاہ سے ملحقہ گھر کی جالی توڑ کر کیمروں کا DVR بھی اپنے قبضہ میں لے لیا۔ پولیس اہلکاروں نے لائیٹ بند کر کے ملحقہ بازار کے دونوں اطراف پولیس کی گاڑیاں لگا کر راستہ بند کر دیا اور مینار گرا کر ملبہ اپنے ساتھ لے گئے۔

مذکورہ احمدی عبادت گاہوں کے مینار گرانے کے حوالے سے مذہبی انتہا پسند پولیس پر دباؤ ڈال رہے تھے۔ پولیس کی جانب سے احمدیوں کو عبادت گاہ کے مینار خود گرانے کا کہنے پر لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ پیش کیا گیا جس کو پولیس نے مکمل نظرانداز کیا اور توہین عدالت کرتے ہوئے بغیر کسی مجاز عدالتی حکم کے غیر قانونی اقدام کرتے ہوئے مینار گرا دیے۔

جماعت احمدیہ پاکستان کے ترجمان عامر محمود نے گوجرانوالہ پولیس کی جانب سے دو احمدی عبادت گاہوں کے مینار بلا جواز اور غیر قانونی طور پر گرانے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ حالیہ کچھ عرصے میں پہ در پہ ایسے واقعات ہوئے ہیں جن میں پولیس انتہا پسندوں کے دباؤ پر احمدیوں کی عبادت گاہوں کے مینار مسمار کر رہی ہے۔ یہاں تک کہ بعض مقامات پر احمدیوں کی قبروں کے کتبوں پر سیاہی پھیری گئی اور ان کتبوں کو مسمار کیا گیا۔ رواں ماہ اکتوبر میں یہ چوتھا واقعہ ہے کہ پولیس نے احمدی عبادت گاہوں کے مینار مسمار کر دیے۔ کیا پولیس کا یہ کام ہے کہ وہ صرف مذہبی انتہاپسندوں کی خوشنودی کے لئے محب وطن احمدیوں کے انسانی حقوق کو غصب کرے؟ پولیس انتہا پسندوں کے دباؤ میں کب تک احمدیوں کو تحفظ فراہم کرنے کی بجائے ان کے بنیادی حقوق پامال کرتی رہے گی؟

ترجمان نے کہا کہ تاریخ شاہد ہے کہ انتہا پسند کبھی بھی آپ سے راضی نہیں ہو سکتے۔ اگر ان کا ایک ناجائز مطالبہ پورا کیا گیا تو وہ مزید ناجائز مطالبے پیش کر دیں گے۔ ترجمان نے ریاست کے ذمہ داران سے مطالبہ کیا کہ وہ اس صورت حال کا فوری نوٹس لیں اور احمدیوں کے جان و مال، ان کی عبادت گاہوں اور قبروں کے تحفظ کے لئے ٹھوس اقدامات کریں۔

مزیدخبریں