عظیم شاعر امروہہ کے معروف ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے، آپ کے والد علامہ سید شفیق بھی شاعر اور عالم تھے، رئیس امروہوی کا اصل نام سید محمد مہدی تھا، آپ معروف شاعر جون ایلیا کے بڑے بھائی تھے جبکہ معروف بھارتی فلمی ہدایت کار، منظر نویس اور شاعر کمال امروہی بھی آپ کے بھائی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے کنبے کو شاعروں کا کنبہ کہا جاتا ہے۔
قیام پاکستان سے قبل رئیس امروہوی کا خاندان امروہہ میں مقیم تھا تو اس دوران وہ مراد آباد سے نکلنے والے کئی رسالوں سے وابستہ رہے۔ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے کراچی میں سکونت اختیار کی اور روزنامہ جنگ کراچی سے بطور قطعہ نگار اور کالم نگار وابستہ ہو گئے، اس ادارے سے ان کی یہ وابستگی تا عمر جاری رہی۔
رئیس امروہوی نے اردو زبان کے فروغ کے لیے دن رات کام کیا اور اردو بولنے والوں کی حمایت میں بھی آواز بلند کرتے رہے۔ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں 1972 میں جب سندھ اسمبلی نے سندھی زبان کا بل منظور کیا تو اس بل نے تنازعات کو جنم دیا، اس موقع پر امروہوی نے اپنی مشہور نظم اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے لکھی۔ رئیس امروہوی کی لکھی یہ نظم آج بھی ان کی یاد دلاتی ہے۔
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
کیوں جان حزیں خطرہ موہوم سے نکلے
کیوں نالہ حسرت دل مغموم سے نکلے
آنسو نہ کسی دیدہ مظلوم سے نکلے
کہہ دو کہ نہ شکوہ لب مغموم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
ممتاز شاعر، دانشور، کالم نگار، رئیس امروہوی نے ملکی اور غیر ملکی سطح پر بے پناہ پذیرائی حاصل کی۔ رئیس امروہوی کے شعری مجموعوں میں الف، پس غبار، حکایت نے، لالہ صحرا، ملبوس بہار، آثار اور قطعات کے چار مجموعے شامل ہیں جبکہ نفسیات اور مابعدالطبیعات کے موضوعات پر ان کی نثری تصانیف کی تعداد ایک درجن سے زیادہ ہے۔
ادب سے محبت کرنیوالے اردو کے اس عظیم سرمایہ کو 22 ستمبر 1988 کو نامعلوم افراد نے قتل کر کے ابدی نیند سلا دیا تھا۔
ملک الموت سے ٹکرا کے رئیس
دیکھنا ہے کہ کہا ں گرتے ہیں
ہم کہ اس شہر کے بازاروں میں
سر ہتھیلی پر لئے پھرتے ہیں