پاکستان مسلم لیگ ن کے ایک سینیئر رہنما اور وفاقی وزیر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نیا دور میڈیا کو بتایا کہ موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی جانب سے اب تک مدت ملازمت میں توسیع مانگنے کی کوئی درخواست نہیں آئی ہے اور نہ ان کی جانب سے ایسی کسی خواہش کا اظہار کیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف، جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور سابق صدر آصف زرداری تینوں اس پر متفق ہیں کہ آنے والے نومبر میں نئے آرمی چیف کی تعیناتی ہو۔
ایک سوال کے جواب میں کہ کیا کسی سیاسی جماعت کے سربراہ کی جانب سے آرمی چیف کے عہدے کے لئے کوئی نام دیا گیا ہے، مسلم لیگ ن کے رہنما اور وفاقی وزیر نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ تمام قیاس آرائیاں ہیں اور کسی سیاسی جماعت کے سربراہ کی طرف سے کوئی نام نہیں آیا، البتہ کچھ ناموں پر مختلف سیاسی جماعتوں کے تحفظات ہیں۔
کیا آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نومبر میں ریٹائرڈ ہو جائیں گے؟
اس کا جواب دیتے ہوئے سینیئر وزیر نے کہا کہ موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ مدت ملازمت مکمل ہونے پر گھر جانا چاہتے ہیں اور وہ مزید توسیع کے حق میں نہیں ہیں۔ البتہ جو لوگ اس قیاس آرائی کو ہوا دے رہے ہیں وہ جنرل باجوہ کو متنازعہ بنانا چاہتے ہیں۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے حالیہ ریمارکس سے کوئی ممکنہ دباؤ آ سکتا ہے، انہوں نے کہا کہ حکومت اور فوج پر اس حوالے سے کوئی دباؤ نہیں ہے البتہ بین الاقوامی محاذ پر اور لوگوں میں خاص کر پی ٹی آئی کے سیاسی کارکنوں میں فوج کے حوالے سے منافرت پھیل رہی ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ آنے والے آرمی چیف کی دوڑ میں مضبوط امیدوار کون ہو سکتا ہے، وفاقی وزیر نے جواب دیا کہ ویسے تو اس معاملے پر نومبر سے پہلے بحث کرنا بے کار ہے اور وزیر اعظم سمری ملنے کے بعد اس پر غور و فکر کرے گا، لیکن میری نظر میں لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر آرمی چیف کے عہدے کے لئے ایک مضبوط امیدوار ہیں۔ پھر بھی حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
وفاقی وزیر نے نواز شریف اور ریاستی ادارے کے ایک سینیئر افسر کے درمیان لندن میں ملاقات کی افواہوں کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیا اور کہا کہ ایسی کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔