نیا دور ٹی وی کے پروگرام 'خبر سے آگے' میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وفاقی وزیر نے سیاسی طور پر عمران خان کو ڈرانے کے لئے متوقع امیدواروں کے نام لیے ہیں۔ اپریل سے عمران خان کے حمایتی سوشل میڈیا پر جنرل باجوہ کے خلاف گندے گندے ٹرینڈ چلاتے رہے ہیں۔ انہی باجوہ صاحب کے بارے میں عمران خان کا آج کا بیان ایک انتہائی غیر آئینی بات ہے۔ دوسرا یہ کہ عمران خان کا آج کا بیان ان کے ڈر کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ خان صاحب کا ڈر بول رہا ہے۔ اس بات پر جب ان کے حمایتی اعتراض کریں گے تو عمران خان انہیں یہ جواب دیں گے کہ عظیم لیڈر وہی ہوتا ہے جو یو ٹرن لے لیتا ہے۔ ان کی آج کی قلابازی کے بارے میں پتہ نہیں خان صاحب کو احساس ہے کہ نہیں کہ انہیں کتنا نقصان ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان سب کچھ ہے، سیاست دان نہیں ہے۔
پروگرام کے دوسرے مہمان اور معروف کالم نگار مزمل سہروردی کا کہنا تھا کہ میں نے 7 ستمبرکو ایک ٹویٹ کیا تھا جب عمران خان نے کہا تھا اگلا آرمی چیف نواز اور زرداری کو نہیں لگانا چاہیے۔ میں نے کہا تھا کہ دراصل عمران خان جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن کی بات کر رہے ہیں۔ اب عمران خان کو سمجھ آ گئی ہے کہ 28 نومبر سے پہلے وہ الیکشن نہیں کروا سکتے۔ اس لئے اب وہ کسی طرح اپریل تک کا ٹائم لینا چاہ رہے ہیں تا کہ وہ اپریل میں اپنی مرضی کا چیف لگا لیں گے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان کو احساس ہوا ہے کہ انہیں حکومت گرانے کے لئے ابھی مزید وقت چاہیے اور اس دوران وہ نیا آرمی چیف بھی نہیں آنے دینا چاہ رہے۔ حالانکہ عمومی رائے یہ ہے کہ عمران خان جسے آرمی چیف بنانا چاہتے ہیں انہوں نے بھی اپریل میں ریٹائر ہو جانا ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ حالیہ بیان سے وہ اسٹیبلشمنٹ کو صلح کا پیغام دے رہے ہیں۔ (ن) لیگ نے بھی توسیع کے حق میں ووٹ دیا تھا اور اسی کے صلے میں اب وہ حکومت میں ہیں۔ عمران خان بھی اب اسی طرح کا پیغام دے رہے ہیں۔ ہر طرف سے ان پر پریشر آ رہا ہے۔ اب اپنی سیاسی زندگی کی بقا کے لئے وہ مختلف آپشن دے رہے ہیں کہ میرے ساتھ سودے بازی کریں۔ اب عمران خان کو وہی مشکل وقت نظر آ رہا ہے جو کچھ عرصہ پہلے (ن) لیگ پر تھا۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ 'نیوٹرل جانور ہوتا ہے، میر جعفر میر صادق والا سارا بیانیہ عمران خان نے آج ڈبو دیا ہے'۔ اس شرط پر کہ مجھے نااہل نہ کروائیں اور مجھے آپ پھر سے قبول ہیں۔ اب پچھلے کچھ دن سے وہ اسٹیبلشمنٹ کی بجائے شہباز شریف پر الزام تراشی کر رہے ہیں کہ شہباز شریف نے ان کی ٹیلی تھان ٹرانسمیشن رکوا دی اور شہباز شریف نے ان کے ساتھ فلاں زیادتی کر دی۔ عمران خان نابالغ نہیں ہیں کہ انہیں یہ نہ پتہ ہو کہ ان کے خلاف جو کچھ ہو رہا ہے وہ کون کروا رہا ہے۔ اب دراصل وہ اپنا بیانیہ ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آج میری وزیراعظم پاکستان شہباز شریف سے ملاقات ہوئی ہے اور ان کا کہنا تھا کہ الیکشن اگلے سال اکتوبر نومبر میں ہوں گے، اس سے ایک دن پہلے بھی نہیں ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کے لئے وقت عمران خان سے زیادہ ہمیں چاہیے۔ ہمیں ریلیف دیتے دیتے ابھی وقت لگے گا۔ اس لئے پیپلز پارٹی، جے یو آئی، ایم کیو ایم، چوہدری شجاعت سمیت کوئی بھی جلدی انتخابات میں نہیں جانا چاہتا۔
سول ملٹری تعلقات پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر صحافی اعجاز احمد کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں جنرل عاصم منیر کے حوالے سے یہ بھی خبریں گردش میں ہیں کہ یہ شاید 27 نومبر سے دو یا تین دن پہلے ریٹائر ہو جائیں گے، کیونکہ ان کو بیجز دو ماہ بعد لگے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کا بیان ان کے ڈر پر مبنی ہو سکتا ہے۔ عمران خان کو پتہ چل گیا ہے کہ باجوہ صاحب کو ایک توسیع ابھی مل سکتی ہے اس لئے عمران خان نے حالیہ بیان دیا ہے۔
عمران خان اب چاہتے ہیں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات بہتر کریں اور اگلا الیکشن جیت کر اگلا آرمی چیف خود تعینات کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ شیخ رشید نے بھی کہا ہے کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان رابطے ہوئے ہیں۔ عمران خان ہر صورت اگلا آرمی چیف خود لگانا چاہتے ہیں۔
چیف جسٹس اگر اس طرح کے بیان دیں گے تو پھر بار اور بنچ کے تعلقات کیسے رہیں گے؟ چیف جسٹس کو چاہیے تھا کہ اس طرح کے ریمارکس مقدمے کے دوران دیتے، اب اتنے عرصے بعد اس طرح کے بیان دینا اچھی بات نہیں ہے۔
پروگرام کے میزبان رضا رومی تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ جیسے چیف جسٹس آف پاکستان کی ریٹائرمنٹ کے بعد ایک طریقہ کار کے تحت اگلا چیف جسٹس آ جاتا ہے اسی طرح ملک کے آرمی چیف سے متعلق بھی واضح طریقہ کار طے کیا جانا چاہیے تاکہ یہ بحث ہمیشہ کے لئے ختم کی جا سکے۔