پاکستان ایک ٹیڑھی عمارت جسے نئے سرے سے تعمیر کرنا ہو گا

آج کوئی بھی محفوظ نہیں، نہتے شہری ہوں کہ نیم پاگل، جو ہجوم کے ہتھے چڑھ جائے، موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ گرجوں کو آگ لگانی ہو، احمدی عبادت گاہوں کو مسمار کرنا ہو یا پھر مندروں پر دھاوا بولنا ہو، ہجوم ریاستی رٹ کو پاؤں تلے روندنے میں دیر نہیں لگاتا۔

08:05 PM, 12 Sep, 2023

اسد لاشاری

پاکستان نامی چادر کو اوڑھے اس زمین کے ٹکڑے کو 76 برس ہو چکے ہیں۔ یہ چادر اوڑھنے کی بنیادی وجہ دھرتی کو ایک نیا نام، نئی شناخت دینا مقصود تھا۔

کچے دھاگے سے بُنی اس چادر میں 24 برس بعد ذرا چھید ہوا تو ٹھیک کرانے اسے رفوگروں کے پاس لے جایا گیا لیکن ناہنجاروں نے بچی کھچی چادر کا جغرافیہ ہی بگاڑ دیا۔

یہ ان کی ناتجربہ کاری کا نتیجہ ہے کہ آج وہ چادر پھٹ کر دو حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ جن کے ہاتھ پھٹی چادر لگی آج وہ خوشحال اور ہم بدحال ہیں۔ سماجی طور پر کرپٹ، معاشی طور پر غربت کا شکار اور مذہبی قوتوں کے ہاتھوں یرغمال ہیں۔

سانحہ جڑانوالہ اور گجرات کے علاقے ڈنگہ میں ذہنی توازن سے محروم شخص کا توہین رسالت کے الزام میں قتل اس کی تازہ ترین مثالیں ہیں۔

آج کوئی بھی محفوظ نہیں، نہتے شہری ہوں کہ نیم پاگل، جو ہجوم کے ہتھے چڑھ جائے، موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ گرجوں کو آگ لگانی ہو، احمدی عبادت گاہوں کو مسمار کرنا ہو یا پھر مندروں پر دھاوا بولنا ہو، ہجوم ریاستی رٹ کو پاؤں تلے روندنے میں دیر نہیں لگاتا۔

فارسی کے شاعر صائب تبریزی کا مشہور شعر ہے؛

چون گذارد خشت اول بر زمین معمار کج

گر رساند بر فلک، باشد همان دیوار کج

'اگر معمار دیوار کی پہلی اینٹ ہی کج رکھے تو پھر وہ خواہ دیوار کو آسمان تک ہی کیوں نہ لے جائے وہ ٹیڑھی ہی رہتی ہے'۔

آج ہم جس ٹیڑھی عمارت کے مکین ہیں، یہ اس کے معماروں کی کج روی کا نتیجہ ہے۔ کچھ مورخین کا خیال ہے کہ مذہب کو ریاست و سیاست کی بنیاد بنانے کا عمل 'قراردادِ مقاصد' نامی تفریق کے 'ہائبرڈ بیج' بونے سے شروع ہوا تھا۔ لیکن قائد اعظم محمد علی جناح کی 22 مارچ 1940 کو کی گئی تقریر کا ذکر خال خال ہی کیا جاتا ہے۔

بانی پاکستان وقتاً فوقتاً اپنی تقاریر، بیانات میں 'اسلامی ٹچ' دیا کرتے تھے۔ 1944 میں مہاتما گاندھی کو اسلامی حوالوں سے بھرپور خط لکھا، پھر 1945 میں عید کے موقع پر پیغام جاری کیا جس میں قرآن کو مکمل ضابطہ حیات قرار دیا۔

ڈاکٹر اشتیاق احمد اپنی کتابJinnah: His Success, Failures, and Role in History میں لکھتے ہیں؛ قائد اعظم نے 22 مارچ 1940 کو مسلم لیگ کے صدارتی خطاب میں دو قومی نظریہ پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ مسلمان اور ہندو صرف مذہبی ہی نہیں بلکہ سیاسی اعتبار سے بھی دو الگ قومیں ہیں۔ لہٰذا ایک ساتھ ایک ملک میں رہتے ہوئے کبھی بھی مضبوط و متحد قومیں نہیں بن سکتیں۔

گمان ہے کہ قائد اعظم کو 22 مارچ 1940 کو کیے گئے خطاب کا ادراک ہو، شاید اس لیے 11 اگست 1947 کی تقریر کی ضرورت محسوس کی تھی۔

اس تقریر میں جناح نے نوزائیدہ ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے فرمایا تھا کہ 'آپ آزاد ہیں، مندروں، مسجدوں میں جانے کے لیے اور پاکستان میں اپنی کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب، ذات یا نسل سے ہو، ریاست کا اس سے کوئی تعلق نہیں'۔

قائد اعظم کی رحلت کے بعد جن کے ہاتھ ملک کی باگ ڈور لگی ان کے نزدیک 11 اگست کی نسبت 22 مارچ 1940 کو مسلم لیگ کے رہنما کی حیثیت سے کیا گیا خطاب زیادہ اہمیت کا حامل تھا۔

ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ قائد اعظم کی ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے کی گئی تقریر کو بنیاد بنا کر نوزائیدہ ریاست کا آئین بنایا جاتا لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔

عقیدے کی بنیاد پر تفریق و تقسیم کی واضح لکیر کھینچتے ہوئے شہریوں کو مذہب کے خانوں میں بانٹ کر پاکستان کے پہلے وزیر اعظم نے شہریوں سے یہ وعدہ کیا تھا کہ 'بلا شبہ تمام مذاہب کے ماننے والے نوزائیدہ ریاست کے برابر کے شہری ہیں'۔ اور کہا کہ 'مسلم اکثریتی ریاست میں غیر مسلم شہریوں کے بنیادی حقوق، جائز مطالبات کا تحفظ کیا جائے گا۔ مذہبی ہم آہنگی و رواداری کو فروغ دیا جائے گا'۔

سر ظفر اللہ خان کا تعلق احمدی برادری سے تھا، ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی جذباتی تقاریر سے قرارداد مقاصد کو دستور ساز اسمبلی سے منظور کرانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ انہیں اپنی تقاریر کا ثمر 25 برس بعد اس وقت ملا جب ریاست نے ان سے مذہبی شناخت چھین کر انہیں غیر مسلم قرار دیا۔

بھارت پر پاکستان کو فوقیت دینے والے پاکستان کے پہلے وزیر قانون جوگندر ناتھ منڈل قرارداد مقاصد کو لے کر تذبذب کا شکار تھے۔ وزیر قانون ہونے کے باوجود قرارداد پر بحث میں حصہ لینا مناسب نہیں سمجھا۔

پاکستان کے پہلے وزیر قانون نے قرارداد منظور ہونے کے بعد وزیر اعظم کو استعفیٰ بھجوایا جس میں لکھا کہ 'پاکستان میں اقلیتوں کا کوئی مستقبل نہیں'۔ استعفی میں ہندوؤں کی املاک، مندروں پر حملوں کا ذکر کیا، اس کے علاوہ خان عبدالغفار خان کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ 'یہاں مسلمان شہریوں کی شہری آزادیوں کا احترام نہیں، تو ایسے میں اقلیتی برادری کیسے خود کو محفوظ سمجھے؟'

جوگندر ناتھ منڈل کے علاوہ دیگر اقلیتی نمائندوں، پریم ہری برما، سری چندر چٹوپادھیائے، بھوپیندرا کمار دتہ، اور پروفیسر راج کمار چکرورتی نے مذہب اور سیاست کو باہم خلط ملط کرنے کے عمل کو نامناسب قرار دیتے ہوئے وزیر اعظم کو اپنے خدشات سے آگاہ کیا۔

سری چندر چٹوپادھیائے نے قائد اعظم کی 11 اگست 1947 کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جناح نے تقسیم کرنے والے دو قومی نظریہ سے یہ کہہ کر علیحدگی اختیار کی تھی کہ 'ریاستی معاملات میں شہری پہلے، جبکہ ہندو، مسلمان، عیسائی بعد میں ہیں'۔ مزید کہا کہ 'اسلامی بنیاد پر آئین بنانے کے بعد مساوی حقوق کی بات کرنا غیر مسلموں کے ساتھ محض ایک دھوکہ ہے۔'

بھوپیندر کمار دتہ نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا؛ 'دنیا بھر میں جمہوری سیاسی نظام کی تعمیر کے لیے ریاستی و سیاسی معاملات کو مذہب سے الگ کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ جبکہ ہم اس کے برعکس مذہب کو سیاست کے ساتھ ملا کر مذہب کو طاقت کے کھیل میں بدل رہے ہیں'۔

برات چندر منڈل نے کہا؛ 'ترکی جہاں پہلے اسلامی قانون نافذ تھا، وہاں بھی ایک سیکولر ریاست قائم کی گئی ہے'۔ مزید کہا کہ 'قانون سازی ریاستی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے کرنی چاہئیے، نا کہ مذہبی گروہوں کے مفادات کو، کیونکہ مذہب افراد کا ہوتا ہے ریاست کا نہیں'۔

اقلیتی نمائندوں کے علاوہ مسلم لیگی خاتون رکن اسمبلی بیگم جہاں آرا شاہنواز کو بھی قرار داد مقاصد سے کئی تحفظات تھے۔ وہ اپنی سوانح حیات Father and Daughter: A Political Autobiography میں رقم طراز ہیں کہ قرارداد مقاصد جناح کے آئین سے روگردانی ہے۔ وہ مزید لکھتی ہیں کہ قائد اعظم نے انہیں بتایا تھا کہ وہ آئین کا مسودہ تیار کر رہے ہیں۔

لیکن ان کے دعوؤں کے بر عکس قرارداد مقاصد پر بحث کے ریکارڈ میں بیگم جہاں آرا شاہنواز کی جانب سے کسی مخالفت کا کوئی ذکر نہیں۔ ممکن ہے کہ پارٹی اور دیگر نادیدہ قوتوں کے دباؤ کے سامنے انہیں سر تسلیم خم کرنا پڑا ہو۔

قائد اعظم نے جواہر لعل نہرو، مہاتما گاندھی یا ابوالکلام آزاد کی طرح کوئی کتاب تحریر کی ہوتی تو ہمیں یہ جاننے میں دشواری پیش نہ آتی کہ وہ کس طرح کا پاکستان چاہتے تھے۔ لہٰذا ہمیں بانیان پاکستان بشمول جناح کے نظریے کا ازسر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ آیا یہ عمارت جس کے ہم مکین ہیں، مزید رہنے لائق ہے یا پھر اسے سرے سے دوبارہ تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔

مزیدخبریں