ماحولیاتی تبدیلیوں کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے ایک اہم قدم کے طور پر الٹرنیٹ ڈویلپمنٹ سروسز نے ایک سیمینار کا انعقاد کیا جس کا عنوان تھا، 'ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کو روکنا: پاکستان کے صنعتی شعبے کی امیشنز کا جائزہ اور آئندہ کا لائحہ عمل'۔ یہ سیمینار 5 ستمبر 2024 کو ہوٹل ڈی شالیمار ملتان میں منعقد ہوا جہاں ٹیکسٹائل اور کھیلوں کی صنعتوں کے اہم سٹیک ہولڈرز جمع ہوئے۔
سیمینار میں اس بات پر زور دیا گیا کہ پاکستان کے صنعتی شعبے، خاص طور پر ٹیکسٹائل اور کھیلوں کی صنعتوں میں کاربن اخراج میں کمی کی فوری ضرورت ہے۔ ماہرین نے قابل تجدید توانائی کے ذرائع اپنانے، کاربن کے اخراج میں کمی اور ماحول دوست ٹیکنالوجی کے استعمال کے مواقع اور چیلنجز پر گفتگو کی۔
امجد نذیر، سی ای او اے ڈی ایس نے اس موقع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی صنعتوں کے لیے قابل تجدید توانائی کے ذرائع اپنانا انتہائی ضروری ہو چکا ہے تاکہ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ اپنے ایکسپورٹ پوٹینشل کو بھی بہتر بنایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کی 91.6 فیصد کاربن اخراج بجلی کے گرڈ سے وابستہ ہے، لہٰذا گرڈ پر انحصار کم کرنے اور برآمدات بڑھانے کے لیے قابل تجدید توانائی کو اپنانا وقت کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر شہود الزمان، جو نیشنل ٹیکسٹائل یونیورسٹی فیصل آباد کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں، نے سیمینار میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ٹیکسٹائل سیکٹر، جو ملک کی 55-60 فیصد برآمدات کا ذمہ دار ہے، فوسل فیولز پر انحصار کرنے کی وجہ سے عالمی مقابلے میں پیچھے ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر ماہ ٹیکسٹائل انڈسٹری میں اوسطاً 25.9 ٹن CO2 کا اخراج ہوتا ہے، اور اگر شمسی توانائی کا استعمال بڑھایا جائے تو یہ اخراج 9.2 ٹن فی مہینہ فی انڈسٹری تک کم کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ڈیکاربنائزیشن کے حوالے سے صنعتیں آگاہ ہوں اور حکومت اس ضمن میں منظم پالیسی سازی کرے۔
صنعت کے نمائندے حسین خواجہ، سی ای او اے ایل ایم گروپ آف انڈسٹریز، نے ملتان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کی موجودہ صورت حال پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے توانائی کے استعمال کے رجحانات، قابل تجدید توانائی کے انضمام کی صلاحیت اور مستقبل قریب میں نافذ ہونے والے کاربن بارڈر ایڈجسٹمنٹ میکنزم (CBAM) کے ممکنہ اثرات پر بات کی۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی برآمدی صلاحیت میں اضافہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ توانائی کی قیمتیں خطے کے دیگر ممالک جیسے بھارت، ویتنام اور بنگلہ دیش کے برابر نہ ہو جائیں۔
بہاؤ الدین زکریہ یونیورسٹی کے ڈاکٹر محمد داؤد نے صنعتوں کی کاربن کمی کی حکمت عملیوں اور ان کے فوائد پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا ٹیکسٹائل سیکٹر توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور CO2 کے اخراج کی وجہ سے اپنی برآمدی صلاحیت میں 15 فیصد کمی کا سامنا کر رہا ہے۔ قابل تجدید توانائی کی طرف منتقلی ناصرف فائدہ مند ہے بلکہ ترقی اور کامیابی کے لیے ضروری ہے۔
سیمنار سے خطاب کرتے ہوئے محکمہ ماحولیات کے عبد الحمید نے کہا کہ صنعتی کاربن کمی ناصرف اخراجات کم کرنے کے لیے ضروری ہے بلکہ ملتان جیسے علاقوں میں ماحول کی حفاظت کے لیے بھی اہم ہے۔ ایک صاف ستھرا صنعتی شعبہ پائیدار ترقی کو یقینی بناتا ہے، جو ماحول اور معیشت دونوں کے لیے ناگزیر ہے۔
ڈاکٹر امجد بخاری نے پائیداری اور آنے والی نسلوں کے لیے آبی وسائل کے تحفظ کے لیے چھوٹے ڈیموں کی اہمیت پر زور دیا۔ فضل لُند، جو سی آئی کے پی (CIKP) کے سربراہ ہیں، نے انصاف پر مبنی توانائی کی منتقلی کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان میں قابل تجدید توانائی کا مستقبل صرف اسی صورت میں دیکھ سکتے ہیں جب ہم انصاف پر مبنی منتقلی کو یقینی بنائیں۔