بدقسمتی سے آج بھی ملک میں مذہبی انتہاپسندی عروج پر ہے۔ ہمیں ملک اور تعلیمی اداروں سے انتہاپسندی کے خاتمے کیلئے تعلیمی نصاب میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ مشال خان ایک ذہین طالب علم تھا، مشال کو قتل کرنے کیلئے مذہب کا سہارا لیا گیا اور آج بھی مذہب کا سہارا لے کر سوشل میڈیا پر مخالفین پر کفر کے فتوے لگائے جاتے ہیں۔
کچھ روز قبل سینئر صحافی حامد میر نے قرآنی آیات کا ترجمہ ٹویٹ کیا، اس ٹویٹ پر مجھے ایسے ایسے جواب پڑھنے کو ملے جس کا ذکر تک نہیں کیا جا سکتا۔ ایک صاحب نے حامد میر سے سوال کہ کیا آپ مسلمان ہیں؟ اب آپ خود ہی اندازہ لگا لیں کہ بات مذہبی انتہاپسندی سے بھی آگے جا چکی ہے۔ تحریک انصاف کے کارکنان اپنے نقطہ نظر سے اختلاف کرنے والوں پر مغلظات کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں اور یہ شکوہ قلم کاروں اور صحافیوں کی اکثریت کو ہے کیونکہ ایک سیاسی جماعت کے کارکنان ذرا سے اختلاف رائے کو بھی برداشت نہیں کرتے۔ حب الوطنی کے سرٹیفیکیٹ بانٹنے والوں اور اسلام کے ٹھیکیداروں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ دیکھیں تو پروفائل پر آرمی چیف، قرآنی آیات یا عمران خان کی تصویر نظر آئے گی اور ٹائم لائن دیکھیں تو سوائے گالیوں کے کچھ نہیں ملے گا۔
سیاست اور مذہب کو الگ الگ رکھنا چاہیے، مگر ہمارے کچھ نادان لوگ ہر بات کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر سیاسی و مذہبی رہنما سیاست میں مذہب کو استعمال نا کریں تو ان کے کارکنان اور پیروکار بھی شاید سدھر جائیں۔ ہمیں اپنے رویوں میں برداشت اور تحمل کا مادہ پیدا کرنا ہو گا تا کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر جنم لینے والے جھگڑے اور نفرتیں خود بخود ہی ختم ہوجائیں اور اس بڑھتی ہوئی شدت پسندی کو لگام دی جاسکے۔
دنیا کے ہر مذہب میں مسالک پائے جاتے ہیں مگر جو شدت پسندی ہمارے ہاں موجود ہے وہ دنیا کے کسی خطے میں موجود نہیں ہے۔ کورونا وائرس دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کو متاثر کر چکا ہے مگر ہمارے ملک میں ابھی تک یہی بحث چل رہی ہے کہ کورونا وائرس ایران سے آئے ہوئے زائرین کی وجہ سے آیا یا تبلیغی جماعت والوں کی وجہ سے پھیلا۔ مذہبی انتہاپسندی کا خاتمہ بےحد ضروری ہے کیونکہ یہ کورونا وائرس سے بھی زیادہ خطرناک ہے مگر اس کا علاج ممکن ہے۔
آئیے شہید مشال خان کے یوم شہادت پر عہد کرتے ہیں کہ انتہا پسندی کے خاتمے کے لئے کوشش کریں گے اور محض معمولی اختلافات کی بناء پر کسی پر کفر کے فتوے نہیں لگائیں گے۔