اسلام آباد پریس کلب کے سامنے دو سال سے ڈیرے ڈالے سندھ کا یہ مظلوم خاندان کون ہے؟

05:14 PM, 13 Apr, 2020

عبداللہ مومند
یہ 11 نومبر 2014 کی ایک صبح تھی، دس سالہ میر عبداللہ جن کا تعلق پتافی قبیلے، ضلع خیرپور سندھ سے تھا۔ گھر میں ناشتہ کر کے اپنی بکریاں چرانے نکلا اور تقریباً دو گھنٹے بعد ان کی پچاس سالہ ماں نصرت خاتون پر قیامت ٹوٹی جب چھوٹے میر عبداللہ کی لاش کو گھر لایا گیا، جس کلہاڑیوں کے وار کر کے بے دردی سے قتل کیا گیا تھا۔

نصرت خاتون اسلام آباد پریس کلب کے سامنے احتجاج پر مجبور ہے مگر سندھ حکومت تاحال ان کو انصاف نہیں دے سکی۔ اسلام آباد پریس کلب کے لان میں احتجاج پر مجبور اس خاندان کے جھوپنڑی نما گھر میں نہ تو بجلی ہے اور نہ ہی گیس کا کوئی انتظام موجود ہے، جس کی وجہ سے سردی اور گرمی دونوں موسموں میں ان کی زندگی اجیرن ہوتی ہے۔

نصرت خاتون کہتی ہیں کہ ان کے 10 سالہ بیٹے میر عبداللہ کو کنسرو قبیلے کے بااثر لوگوں نے اس وجہ سے قتل کیا کیونکہ میر عبداللہ کے پاس موجود بکریاں غلطی سے کنسرو قبیلے کے بااثر وڈیروں کے کھیتوں میں چلی گئی تھیں۔ جس پر انہوں نے میر عبداللہ کو پکڑ کر کلہاڑیوں سے مار مار کر قتل کر دیا اور ان کے بیٹے کی ٹکڑے ٹکڑے لاش گھر لائی گئی۔

نصرت خاتون کا کہنا ہے کہ بیٹے کے قتل کے بعد وڈیروں نے سندھ پولیس اور پیپلز پارٹی کے مقامی سیاستدانوں کے ساتھ مل کر ان کو عدالت میں کیس دائر نہ کرنے کا کہا مگر عدالت میں کیس دائر کرنے کے بعد ہمارے خاندان کے پانچ افراد کو وقفے وقفے سے قتل کیا گیا اور ہماری دو بستیوں مڈ اور دریا خان کے تقریباً ساٹھ سے زیادہ گھروں کو مسمار کیا گیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے قبیلے پر اس وقت 125 ایف آئی آرز درج ہیں جبکہ خاندان کے 50 بندوں کو وڈیروں نے جیل میں ڈالا ہوا ہے۔

نصرت خاتون نے الزام لگایا ہے کہ سندھ کے اس وقت کے وزیراعلی سید قائم علی شاہ اور پیپلز پارٹی کی ایم این اے نفیسہ شاہ ملزموں کی پشت پناہی کر رہے ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف ان کے خاندان کے لوگ قتل ہوئے، گھر مسمار ہوئے بلکہ درجنوں لوگ اپنا علاقہ چھوڑ کر جلا وطن ہوچکے ہیں۔

سال 2018 میں متاثرہ خاندانوں نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے سامنے دھرنا دیا جس کے بعد پولیس نے ان کو گرفتار کیا مگر اس وقت کے چیف جسٹس، چیف جسٹس (ر) میاں ثاقب نثار نے اس ناانصافی پر ایکشن لیا اور سندھ حکومت سے جواب طلب کیا۔ سندھ حکومت کے دستاویزات جو نیا دور میڈیا کے پاس موجود ہیں ان میں سندھ حکومت نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ دونوں قبیلوں میں زمین پر تنازعہ چل رہا ہے اور دونوں قبیلوں کے درجنوں لوگ اس لڑائی میں قتل ہوچکے ہیں اور پتافی قبیلے کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوا جبکہ ان کی دکانیں اور 14 گھر کنسرو قبیلے کے لوگوں نے مسمار کئے ہیں۔

بعدازاں سپریم کورٹ نے اپنے احکامات میں واضح کیا تھا کہ متاثرہ قبیلے کو نقصان کی مد میں رقم ادا کی جائے، جس کے بعد سندھ حکومت نے متاثرہ 14 خاندانوں کو رقم ادا کرنے کی حامی بھر لی مگر متاثرہ خاندان کا کہنا ہے کہ رقم دو خاندانوں کو ملی جبکہ باقی پیسے کرپشن کی نظر ہوئے۔ سپریم کورٹ نے اپنے احکامات میں حکم دیتے ہوئے انسپکٹر جنرل پولیس سندھ آفتاب احمد پٹھان کو یہ بھی کہا تھا کہ متاثرہ خاندانوں کے ساتھ بیٹھ کر ان کو سنا جائے اور ان کے مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے۔

سپریم کورٹ کو جمع کرائے گئے دستاویزات میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ متاثرہ خاندانوں کے ساتھ مل کر یہ یقین دلایا گیا ہے کہ قتل اور گھروں کے مسماری میں ملوث مجرمان کو جلد پکڑا جائے گا اور قبیلے کو سخت سیکیورٹی فراہم کی جائے گی مگر خاندان کے لوگوں نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل نہیں کیا گیا نہ مجرمان پکڑے گئے اور نہ ان کے قبیلے کو سیکیورٹی فراہم کی گئی، جس کی وجہ سے ان کا قبیلہ دربدر ہے۔

کیمپ میں موجود 60 سالہ چٹن، جن کے دو بیٹوں کو کنسرو قبیلے کے وڈیروں نے قتل کیا ہے، انہوں نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ ان کا بیٹا علی رضا کراچی میں تھا، جب کنسرو قبیلے کے بااثر وڈیرے انہیں اغوا کر کے اپنے قبیلے لے گے، جس کے بعد ان کی زبان کاٹی گئی اور ان کی دونوں آنکھیں نکالی گئیں اور پھر چھریوں سے ان کا پیٹ کاٹ کر ان کے جسم کے دیگر اغضا کو باہر نکالا گیا اور اس کے بعد ان کے دوسرے بیٹے رازو کو بھی قتل کیا گیا مگر تاحال ان کے قاتلوں کی گرفتاری نہیں ہوسکی۔

سندھ حکومت نے سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی تھی کہ خاتون چٹن کے دونوں بیٹوں کو قتل کیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ موجودہ خاندان کا تاحال ایک ہی مرد باشندہ 20 سالہ معروف جیل سے باہر ہے، جو اسلام آباد کی سڑکوں پر انصاف حاصل کرنے کے لئے جدوجہد میں مصروف ہے۔

معروف نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ انھوں نے اپنے خاندان کے ساتھ پیدل عمران خان کی رہائش گاہ بنی گالہ تک سفر کیا اور اس کے بعد بلاول بھٹو زرداری کے اسلام آباد میں واقع گھر چلے گئے اور احتجاج کیا مگر کوئی سنوائی نہیں ہوئی۔ وہ کہتے ہیں کہ اس تمام جدوجہد کے بعد اگر وہ اپنے گاؤں چلے گئے تو ان کے باقی ماندہ لوگوں کو بھی قتل کر دیا جائے گا۔
مزیدخبریں