آج دس رکنی بینچ 24 منٹ تاخیر سے آیا۔ ساڑھے 11 بجے شروع ہونے والی 11 بج کر 55 منٹ پر شروع ہو سکی۔ 11 بج کر 54 منٹ پر کورٹ روم نمبر ون کا ججز کے داخلے کے لئے مخصوص دروازہ کھلا تو دربان نے آواز لگائی کورٹ آ گئی۔ دس ججز کو اپنی نشستوں کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھ رہا تھا اور جب معزز جج صاحبان دربانوں کی طرف سے نشستیں آگے کرنے پر بیٹھے تو ایک بہت ہی دلچسپ منظر تھا۔ یوں محسوس ہو رہا تھا سپریم کورٹ کے ججز دو امینوں کے گھیرے میں ہیں۔ یعنی بینچ کے انتہائی دائیں طرف چکوال سے تعلق رکھنے والے جسٹس قاضی محمد امین احمد بیٹھے تھے اور انتہائی بایں جانب جسٹس امین الدین خان بیٹھے تھے جب کہ بقیہ آٹھ ججز ان دونوں معزز ججز کے درمیان موجود تھے۔ تمام ججز کے بیٹھتے ہی درخواست گزار جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، مسز سرینا عیسیٰ اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بیٹی وکلا کے لئے مخصوص روسٹرم پر کھڑے ہو گئے۔ حکومتی طرف سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان بھی روسٹرم پر آ گئے جب کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بیٹی دو قدم پیچھے ہٹ کر کھڑی ہو گئی۔
دس رکنی فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے اعلان کیا کہ وہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی نظر ثانی اپیل براہ راست نشر کرنے کی درخواست کا فیصلہ سنائیں گے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے نیلے رنگ کی فائل کھولی اور فیصلہ پڑھنا شروع کرنے سے پہلے بتایا کہ چھ ججز کی اکثریت نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست خارج کر دی ہے جب کہ چار ججز کی اقلیت نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست منظور کی ہے۔ اکثریتی سات ججز میں سے ایک جج کا اقلیتی ججز کی طرف چلے جانا ایک بہت بڑی خبر تھی اور ہم سوچ رہے تھے کہ کون سا جج ٹوٹا ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے فیصلے سے مزید بتایا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست خارج کرنے کی وجوہات تفصیلی فیصلے میں بتائی جائیں گی یعنی کہ 18 مارچ کو محفوظ کیے گئے فیصلہ پر 27 دن بعد بھی آیا تو شارٹ آرڈر اور وہ بھی یہ کہ درخواست خارج اور تفصیلات بعد میں۔ اب جسٹس عمر عطا بندیال نے فیصلے کی فائل سے مزید پڑھ کر بتایا کہ درخواست تو خارج کر دی لیکن تمام ججز آرٹیکل 19 اے کے تحت عوام کو عوامی مفاد کے امور کی معلومات تک رسائی کے حق کو تسلیم کرتے ہیں۔ فیصلے میں چھ ججز نے قرار دیا ہے کہ عوام کو معلومات تک رسائی ایک انتظامی معاملہ ہے جو فل کورٹ اجلاس میں طے کیا جائے۔
چھ صفحوں کے فیصلے میں جسٹس یحیٰ آفریدی کا نوٹ بھی شامل تھا جنہوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست خارج کرنے کے فیصلہ سے اتفاق کرتے ہوئے لکھا کہ یہ درخواست خارج کرنے کی وجہ بھی وہی ہے جو میں نے پہلے بھی ریفرنس خارج کرتے وقت دی تھی کہ سپریم کورٹ کے جج کا سپریم کورٹ سے انصاف مانگنا حلف کی روح کے منافی ہے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی آگے چل کر لکھتے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ معلومات تک رسائی کے آرٹیکل 19 اے کے تحت عوام کا حق ہے کہ انہیں آرٹیکل 184(3) اور آرٹیکل 186 کے تحت چلنے والے مقدمات کی سماعت تک لائیو سٹریمنگ یا تحریری صورت میں رسائی ہو۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو ہدایت دی کہ وہ اس معاملے کو فل کورٹ کے سامنے رکھیں تاکہ آرٹیکل 191 کے تحت عوام کے بنیادی حقوق پر عملدرآمد کے لئے اس پر اقدامات لیے جا سکیں۔
اس کے بعد جسٹس عمر عطا بندیال نے اکثریت سے اختلاف کرنے والے چار ججز کا شارٹ آرڈر پڑھنا شروع کر دیا۔ دلچسپی کی بات ہے فل کورٹ کے سربراہ غیر معمولی طور پر اکثریتی ججز اور اقلیتی ججز کا نام نہیں لے رہے تھے اور نہ ہی جسٹس یحییٰ آفریدی کا نوٹ پڑھتے وقت ان کا نام لیا۔ بہرحال دس ججز میں سے چار نے اپنے شارٹ آرڈر میں لکھا کہ آرٹیکل 19 اے ریاست کے تمام اداروں بشمول عدلیہ پر یہ ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ وہ تمام ضروری اقدامات لے کر یقینی بنائیں کہ عوام کو عوامی مفاد کے امور سے متعلق معلومات تک رسائی ہو۔ چار معزز جج صاحبان نے قرار دیا کہ آرٹیکل 184 کے تحت سنی جانے والی درخواستیں اور نظر ثانی اپیلیں اور دیگر امور بھی دراصل عوامی مفاد کا کیس ہوتے ہیں اور اس لئے عوام کو حق حاصل ہے کہ وہ جان سکیں اور دیکھ سکیں کہ ان کیسز کی سماعت کیسے ہوئی اور عدالت نے کیسے نتیجہ اخذ کر لیا۔ چاروں معزز ججز نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو ہدایت دی کہ وہ آرٹیکل 191 میں ترمیم کے تحت تمام اقدامات لے اور ٹیکنالوجی اور آلات فراہم کرے تاکہ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر ایک لنک موجود ہو جہاں لوگوں کے دیکھنے اور سننے کے لئے سپریم کورٹ کے کمرہ عدالت میں ہونے والی سماعت کی آڈیو اور وڈیو موجود ہو۔ چاروں معزز ججز نے مزید ہدایت دی کہ سپریم کورٹ کے پاس پہلے سے موجود وسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے رجسٹرار سپریم کورٹ کو حکم دیتے ہیں کہ وہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی نظر ثانی اپیلوں کی سماعت کے فوری بعد مکمل سماعت کی آڈیو بغیر کسی ایڈیٹنگ (ترمیم) سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر عوام کے لئے اپ لوڈ کر دیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے جیسے ہی شارٹ آرڈر ختم کر کے وکلا کے لئے مخصوص روسٹرم کی طرف دیکھا تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دریافت کیا کہ میں جان سکتا ہوں کون سے چار ججز نے اختلاف کیا اور اکثریتی چھ ججز کون ہیں؟ دس رکنی فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے جواب دیا کہ آپ کو جب فیصلہ ملے گا تو پڑھ لیجیے گا فی الحال آپ بتائیے اب کیا آپ اپنی نظر ثانی اپیل پر فوری دلائل شروع کرنا چاہیں گے یا وقت درکار ہوگا۔ درخواست گزار جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نام جاننے پر اصرار کرتے ہوئے دلیل دی کہ میں کیسے دلائل دوں اور کس چیز پر دلائل دوں؟ نہ تو مجھے آپ کا فیصلہ ملا ہے نہ معلوم ہے کون سے ججز نے فیصلہ تحریر کیا ہے اور 27 دن کے انتظار کے بعد آج ملا بھی تو شارٹ آرڈر۔ اس موقع پر جسٹس عمر عطا بندیال کے چہرے کے تاثرات یکسر بدل گئے اور انہوں نے انتہائی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو سختی سے تنبیہ کی کہ وہ اس انداز میں بینچ سے بات مت کریں اور ہمیں مت بتائیں کہ کتنے دن لگے فیصلہ کرنے میں۔ جسٹس عمر عطا بندیال کی آواز بلند ہوتی جا رہی تھی اور ان کا مزید کہنا تھا کہ آپ نے بینچ کو خط بھی لکھا جو کسی صورت قابل قبول نہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جواب دیا کہ وہ خط ریکارڈ پر موجود ہے اس میں کیا غلط لکھا میں نے؟ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید وضاحت کی کہ میں نے خط میں صرف جلدی فیصلہ سنانے کی استدعا کی تھی۔ کیا یہ غلط ہے؟ اس مکالمے کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال کا چہرہ غصے سے واضح طور پر لال نظر آ رہا تھا اور ان کے ہونٹ اور جسم میں کپکپاہٹ واضح طور پر دیکھی جا سکتی تھی اور اپنے اس اضطراب کو کنٹرول کرنے کے لئے جسٹس عمر عطا بندیال نے چند لمحوں میں اپنے سامنے موجود پانی کے دو گلاس اٹھا کر پی لیے۔ اب جسٹس مقبول باقر نے مداخلت کی اور روسٹرم پر موجود جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ہاتھ کا اس انداز میں اشارہ کیا جیسے کہنا چاہ رہے ہوں کہ کم از کم آپ تحمل کا مظاہرہ کیجیے۔ بینچ کسے سربراہ کے دائیں طرف بیٹھے جسٹس مقبول باقر نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے استفسار کیا کہ وہ کیوں نہیں آج اپنی نظر ثانی کی اپیل پر دلائل شروع کر دیتے تاکہ جلد سے جلد فیصلہ سنایا جا سکے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس مقبول باقر نے جواب دیا کہ مجھے جب فیصلہ ہی نہیں ملا اور نہ ہی ججز کے نام بتائے جا رہے ہیں تو کیسے دلائل شروع کروں؟ اس دوران جسٹس عمر عطا بندیال اپنی نشست پر پہلو بدل رہے تھے، کبھی دائیں کبھی بائیں دیکھتے اور کبھی فائل پر نظر ڈالتے اور کبھی روسٹرم کی طرف ہلکی سی نگاہ ڈالتے ہوئے ہلکا سا مسکرانے کی کوشش کرتے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ دس رکنی فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال اپنے جذبات پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جب کہ بینچ کے دیگر ججز کے چہروں پر بھی مایوسی اور اضطراب کے ملے جلے تاثرات دیکھے جا سکتے تھے۔ اب کمرہ عدالت میں کشیدگی ختم کرنے کے لئے جسٹس منظور ملک نے مداخلت کی اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے دریافت کیا کہ وہ کیا اپنی نظر ثانی درخواست پر آج دلائل دینا چاہتے ہیں یا انہیں وقت درکار ہے؟
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے جواب دینے سے پہلے فل کورٹ کے انتہائی دائیں طرف موجود چکوال کے جسٹس قاضی محمد امین احمد نے ہاتھ ہوا میں اٹھا کر کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو کچھ یوں مخاطب کر کے پوچھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ میں جسٹس قاضی امین اپنی ذاتی حیثیت میں آپ سے پوچھ رہا ہوں اور اپنے لئے جاننا چاہتا ہوں کہ آپ آج خود کو دلائل دینے کے لئے بہتر محسوس کر رہے ہیں اور تیاری کرکے آئے ہیں یا آپ کو وقت درکار ہوگا کیونکہ اگر آپ ذہنی طور پر تیار نہیں تو آپ کو دلائل نہیں دینے چاہئیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جواب دیا کہ میں دونوں صورتحال کا سامنا کرنے کے لئے دلائل تیار کر کے آیا تھا کہ اگر میرے حق میں فیصلہ آئے گا تو کیا دلائل دوں گا اور خلاف فیصلہ آئے گا تو کیا دلائل دوں گا لیکن اب جب کہ مجھے کاپی ہی نہیں دی جا رہی تو میں ذہنی طور پر خود کو دلائل دینے کے لئے تیار نہیں محسوس کر رہا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے مایوسی سے کہا کہ معزز جسٹس عمر عطا بندیال نے برہمی کا اظہار کیا اور آپ بھی اگر کہتے ہیں تو میں دلائل دینا شروع کر دیتا ہوں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے فوری مداخلت کی اور ریمارکس دیے کہ میں نے فوری دلائل کی ہدایت نہیں دی یہ آپ (جسٹس قاضی فائز عیسیٰ) کی مرضی ہے آج دینا چاہیں یا جب تک چاہیں ہم مہلت دے دیتے ہیں۔
کمرہ عدالت میں تناؤ تو موجود تھا لیکن ایک دلچسپ پہلو یہ تھا کہ جسٹس مقبول باقر اور جسٹس منظور ملک کے ریمارکس سے تاثر مل رہا تھا کہ وہ فوری دلائل شروع کرنے کی خواہش رکھتے ہیں جب کہ جسٹس قاضی محمد امین احمد اور جسٹس عمر عطا بندیال چاہتے تھے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو دلائل کے لئے مہلت دے کر سماعت مؤخر کر دی جائے۔ بینچ کے ججز کی خواہش میں یہ فرق کیوں تھا یہ ہمیں بعد ازاں فیصلے کی کاپی حاصل کر کے اور اختلافی ججز کے نام پڑھ کر سمجھ آیا۔ اس دوران مسز سرینا عیسیٰ نے معزز بینچ سے درخواست کی کہ وہ کچھ کہنا چاہتی ہیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے مسز سرینا عیسیٰ کی استدعا قبول کرتے ہوئے انہیں بولنے کی اجازت دی تو مسز سرینا عیسیٰ نے دستاویز سے پڑھتے ہوئے بینچ کو آگاہ کیا کہ دس رکنی فل کورٹ نے توہین کرنے پر ایک وزیر کے خلاف کارروائی کا کہا لیکن کوئی ایکشن نہیں ہوا، اسی طرح ایک مولوی نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو قتل کی دھمکیاں دیں لیکن کوئی ایکشن نہیں ہوا اور اس سب سے حوصلہ پا کر اب وفاقی وزیر فواد چوہدری نے بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف نازیبا زبان استعمال کی ہے۔ مسز سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے لئے سب سے اہم چیز اس کی عزت و توقیر ہوتی ہے لیکن یہاں میرے درخواست داخل کرنے کے باوجود رجسٹرار سپریم کورٹ سماعت کے لئے مقرر نہیں کر رہے۔ مسز سرینا عیسیٰ کا مزید کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے ماضی میں متعدد سیاستدانوں کو توہین عدالت پر نااہل کیا۔ اس موقع پر مسز سرینا عیسیٰ نے سابق وزیر اعظم اور سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر یوسف رضا گیلانی کی خصوصی طور پر مثال دیتے ہوئے کہا کہ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے تو کسی کی توہین بھی نہیں کی تھی لیکن ان کو پھر بھی گھر بھیج دیا تھا عدالت نے، لیکن یہاں کھلے عام ایک جج اور عدالت کی تضحیک کی جا رہی ہے لیکن رجسٹرار سپریم کورٹ کو پرواہ نہیں اور وہ درخواست دینے کے باوجود سماعت کے لئے مقرر نہیں کر رہا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے تاثرات سے عاری چہرے کے ساتھ جواب دیا کہ ہم فی الحال نظر ثانی کی اپیلیں سننے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور وقت آنے پر یہ درخواست بھی سماعت کے لئے مقرر کر دی جائے گی۔
اب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بولے کہ جناب میری زندگی دو سال سے اجیرن کر دی گئی ہے اور میرے کیس میں چھ ماہ سے نظر ثانی کی تک کی سماعت نہیں شروع ہو سکی جب کہ رجسٹرار سپریم کورٹ کے میرے خلاف تعصب پر میں نے سخت الزامات کے ساتھ ان کو فریق بنا رکھا ہے اور وہ یہاں بھی اپنے تعصب کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور درخواست سماعت کے لئے مقرر نہیں کر رہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال اٹھایا کہ کیا معزز عدالت کے ججز رجسٹرار کے فیصلوں کے ماتحت آتے ہیں؟ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے دلائل ابھی جاری تھے کہ اچانک جسٹس عمر عطا بندیال نے سماعت برخاست کرنے کا اعلان کر دیا اور یہ اتنا اچانک تھا کہ دس ججز کے دربان سکون سے کمرہ عدالت کی سائیڈ پر موجود سیڑھیوں پر بیٹھے تھے لیکن سماعت ختم ہونے کا اعلان سن کر ہڑبڑا کر اٹھے اور معزز ججز کی نشستوں کی طرف دوڑ لگا دی۔ جسٹس عمر عطا بندیال کے سماعت کے اختتام کے اعلان کے بعد دیگر ججز نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر خاموشی سے اٹھ کر کمرہ عدالت سے چلے گئے۔ سینیئر قانون دان حامد خان اور کچھ وکلا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے پاس جا کر گفتگو کرنے لگے اور ہم سب صحافی کمرہ عدالت سے باہر نکل کر گفتگو کرنے لگے کہ جسٹس عمر عطا بندیال کی غیر معمولی برہمی کی وجہ آخر کیا تھی؟ اتنے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی کمرہ عدالت سے نکلے تو میں نے ان سے سوال کیا کہ سر اختلاف کرنے والے چار ججز کون ہیں؟ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ رکے اور جواب دیا یہ تو آپ صحافی معلوم کریں مجھے تو کمرہ عدالت میں نہیں بتایا گیا۔
سماعت کے آدھے گھنٹے بعد مختصر فیصلہ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیا گیا تو پڑھنے پر انکشاف ہوا کہ دس رکنی بینچ کی سات رکنی اکثریت میں سے ایک نہیں دراصل دو ججز براہ راست نشر کرنے کی حد تک اقلیت سے جا ملے ہیں اور یہ دو ججز معزز جسٹس منظور ملک ہیں جو رواں ماہ 30 اپریل کو ریٹائرڈ ہونے جا رہے ہیں جب کہ دوسرے ڈیرہ اسماعیل سے تعلق رکھنے والے پشاور ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ ترقی پانے والے جسٹس مظہر عالم میاں خیل تھے۔ کل سے نظر ثانی کی اپیلوں کی سماعت کا باقاعدہ آغاز ہو رہا ہے اور یہ بہت دلچسپ مشاہدہ ہوگا کہ رواں ماہ ریٹائر ہونے والے جسٹس منظور ملک کیا ورثہ چھوڑ کر جائیں گے کیونکہ مؤرخ یقینی طور پر جسٹس منظور ملک کے پورے عدالتی کریئر کا فیصلہ صرف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کی بنیاد پر کرے گا۔ اور یہ بھی دلچسپی کا حامل ہوگا کہ جسٹس مظہر عالم میاں خیل تاریخ میں اپنا نام تاریخ میں کیسے درج کرواتے ہیں۔