نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں ملک کی سیاسی صورتحال اور آئندہ کے منظر نامے پر اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ بات درست ہے کہ بلوچستان کی حکومت اور صادق سنجرانی والا آپریشن ہوا تھا تو یہ بات طے تھی کہ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی مل کر چلیں گے۔ اس بات کا بھی سب کو اچھی طرح علم ہے کہ عمران خان کے پاس عارف علوی کو صدر بنانے کیلئے ووٹ ہی پورے نہیں تھے۔ اس وقت ساری اپوزیشن نے ہاتھ جوڑ کر آصف زرداری سے التجا کی تھی کہ وہ اپنی پارٹی میں سے جس کو چاہیں صدر مملکت کا امیدوار کھڑا کریں لیکن اعتزاز احسن کو نہیں، کیونکہ ان کو مسلم لیگ ن کا ووٹ ڈالنا بہت ہی مشکل ہے۔ آپ کوئی ایسا امیدوار سامنے لائیں جس کو سب ووٹ ڈال سکیں۔
مزمل سہروردی کا کہنا تھا کہ 2018ء میں پرائم منسٹر کے انتخابات کو ہی دیکھ لیں۔ یہ انتہائی ٹف الیکشن تھا۔ یہ صرف چار ووٹوں کا الیکشن تھا لیکن زرداری صاحب نے شہباز شریف کو ووٹ نہیں ڈالے کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ اس بندے نے بہت نازیبا زبان استعمال کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس بار بھی نواز شریف کو کوئی آصف زرداری نے تسلیم نہیں کیا۔ ایک ماہ پہلے تو وہ ان کیخلاف تقریریں کر رہے تھے۔ جس نے قائل کیا اس کا ہم سب کو پتا ہے۔ ہم ایویں کسی کا کریڈٹ کسی کو دینے لگ جاتے ہیں۔ جو گارنٹر ہے، وہ ہمارے سامنے ہے۔ تاہم ہمیں ایک زرداری سب پر بھاری ہی کہنا چاہیے، باقی سب باتیں آخر کہنے کی کیا ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ کابینہ کی تشکیل جلد ہی پایہ تکمیل کو پہنچ جائے گی۔ اس میں ایسی کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ ایسا ممکن نہیں ہے کہ اتحادی جماعتیں وزارتوں پر اب لڑنا شروع کر دیں۔
مزمل سہروردی کا کہنا تھا کہ حکومت کے جانے کا کوئی چانس ہی نہیں ہے۔ کیا عمران خان خود شہباز شریف کو نکالنے کیلئے تحریک عدم اعتماد لے آئیں گے؟ ان کو ایسا کرنے کیلئے 172 ووٹ درکار ہونگے جبکہ ان کے پاس تو اپنے اراکین پورے نہیں ہیں۔