مشال خان کو توہین مذہب کے جھوٹے الزام کی بھینٹ چڑھے 6 سال بیت گئے

مشال خان کو توہین مذہب کے جھوٹے الزام کی بھینٹ چڑھے 6 سال بیت گئے
13 اپریل 2017 کے دن مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں صحافت کے طالب علم مشال خان پر توہینِ مذہب کا الزام لگا کر درجنوں ساتھی انسانوں نے تشدد کر کے بے رحمی سے اسے موت کے حوالے کر دیا۔

سیاسی، سماجی اور میڈیائی سب یہ خبر سن کر سہم گئے اور اس خبر کے میڈیا پر آنے یا کسی سیاسی رہنما کی زبان پر اس واقعے کا تذکرہ آنے میں گھنٹوں لگ گئے۔ اس روز میڈیا اور سیاسی رہنما حسب معمول باقی مسئلوں میں اُلجھے رہے، یہاں تک کہ جب سوشل میڈیا کے ذریعے اس واقعے سے متعلق خبریں اور ویڈیوز گردش کرنے لگیں تو میڈیا کو بھی اس جانب توجہ دینا ہی پڑی اور یوں عام انسان بھی اس جانب متوجہ ہوئے۔ ڈان اردو نیوز چینل کے علاوہ کسی بھی چینل نے اس واقعے کو اس دن اپنے کسی بھی پروگرام میں زیربحث لانے کے قابل نہ سمجھا۔ وسعت اللہ خان کے ٹاک شو 'ذرا ہٹ کے' میں اسی دن یہ واقعہ زیر بحث آیا اور پھر دوسرے دن باقی ٹی وی چینلز نے بھی چاہتے نا چاہتے کچھ نہ کچھ نشریاتی وقت اس واقعے کی نذر کر ہی دیا۔

مشال خان کو گستاخ قرار دے کر مارا گیا تھا اس لئے پہلا تنازعہ اس کے جنازے پر ہی کھڑا ہو گیا۔ مقامی علماء حضرات کیلئے یہ قابل قبول نہیں تھا کہ ایک مبینہ گستاخ کی نماز جنازہ پڑھا کر گنہگار ہو جائیں لہٰذا یہ نماز جنازہ مقامی علماء کے بجائے ایک عام آدمی نے پڑھائی اور مشال کی میت کو بھی خوف کے سائے میں دفن کیا گیا۔

شروع ہی سے کوشش کی جاتی رہی کہ معاملہ غیر اہم قرار دے کر اس بارے میں کم سے کم بات چیت کی جائے۔ چونکہ اس قتل میں ملوث حضرات کا تعلق خیبر پختونخوا کی سیاسی جماعتوں سے تھا اور قاتلوں کو ان جماعتوں کی پشت پناہی بھی حاصل تھی اس لئے میڈیا بھی اس واقعے کو جلد ہی بھولنے لگا اور کوشش کی گئی کہ عوام کے ذہن و شعور پر نت نئے ہنگاموں کا اتنا بوجھ لاد دیا جائے کہ وہ مشال خان کے قتل کو معمولی واقعہ سمجھ کر آگے بڑھ جائیں اور جب کبھی ان کا شعور ہلکی سی جھپکی لے تو وہ محض ایک سرد آہ بھر کر باقی خبروں کی طرف متوجہ ہو جائیں۔ اللہ اللہ خیر سلاّ!

اس ساری صورت حال میں ایک شخص ایسا بھی تھا جو پہلے دن سے قاتلوں کے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہو گیا اور آخر تک اس واقعے کو زندہ رکھنے کیلئے کوشاں رہا۔ اقبال لالہ جسے مغرب کا ایجنٹ بھی کہا گیا اور اس پر یہ الزام بھی لگایا گیا کہ اسے باہر سے پیسے مل رہے ہیں اور یہ بھی کہا گیا کہ ملالہ یوسف زئی اور اقبال خان جیسے لوگ مل ملا کر ملک کی عزت کو خاک میں ملا رہے ہیں۔ ان کیلئے یہ تجویز بھی پیش کی گئی کہ ٹھیک ہے آپ کا بیٹا مر گیا، مگر ایسے کئی بیٹے روز مرتے رہتے ہیں پھر آپ اکیلے کیوں اتنا شور ڈال رہے ہیں۔ چپ کر کے اللہ کی رضا پہ راضی کیوں نہیں ہو جاتے، کیوں چیخ چیخ کر ملک کا نام بدنام کر رہے ہیں۔ مگر وہ بولا کہ ٹھیک ہے ایسے بچے پہلے بھی مرتے رہے ہیں، مگر میں چاہوں گا کہ میرے بچے کے بعد کوئی اس طرح محض شک کی بنیاد پر بے رحمی سے نہ مار دیا جائے۔ میں اپنے بیٹے اور باقی تمام بچوں کیلئے آواز اٹھائوں گا اور ملزمان کو پھانسی تک پہنچاؤں گا۔ یہ سلسلہ کہیں نہ کہیں تو روکنا ہی پڑے گا۔

مقدمہ شروع ہو گیا۔ جے آئی ٹی بن گئی۔ اب اس جے آئی ٹی کو بھی اپنے کام میں رکاوٹیں پیش آنا شروع ہو گئیں۔ ممبران کو بیچ تفتیش کے ہی تبادلے کرانے پڑے۔ جب قتل کی ویڈیوز کی جانچ پڑتال شروع ہوئی اور قاتل پہچانے جانے لگے تو پریشر ناصرف جے آئی ٹی ممبران پر بڑھا بلکہ مشال کے والد اور باقی گھر والوں نے بھی خطرہ محسوس کرنا شروع کر دیا۔ مشال کے گھر پر سکیورٹی تعینات کر دی گئی۔ اس کی بہنیں سکول چھوڑ کر گھر بیٹھ گئیں اور اقبال لالہ روزانہ کی بنیاد پر دھمکیاں سنتے رہے مگر اپنی بات پر اڑے رہے۔ اس دوران کیس کی سماعت بھی یہاں سے وہاں منتقل ہوتی رہی اور میڈیا میں بھی بس کبھی کبھار ہی اس بارے میں کوئی سنگل کالمی خبر پڑھنے یا سننے کو ملتی۔ ان سارے حالات میں بدگمانی نے اپنا اثر دکھانا شروع کر دیا اور اقبال لالہ سمیت سبھی کو لگنے لگا کہ انصاف اتنی بھی آسانی سے نہیں ملنے والا، پتہ نہیں ملے گا بھی یا نہیں۔

اس کیس میں مشال خان کے والد اقبال لالہ کی حالت فرانز کافکا کی کہانی 'Before the Law' والے اس شخص جیسی ہو گئی تھی جسے قانون و انصاف تک رسائی کیلئے ایک چوکیدار ساری عمر دروازے سے اندر نہیں جانے دیتا اور جب وہ شخص مرنے والا ہوتا ہے اور چوکیدار سے پوچھتا ہے کہ یار اتنے سالوں سے میں یہاں آ رہا ہوں، میرے علاوہ تو کوئی بھی بندہ انصاف کیلئے اس دروازے کے سامنے نہیں آتا جاتا دیکھا۔ اس پر چوکیدار بتاتا ہے کہ جناب ہر بندے کیلئے الگ دروازہ ہے جہاں میرے جیسا الگ ایک چوکیدار تعینات ہے جس کی ذمہ داری صرف اسی بندے کو ہی انصاف تک پہنچنے سے روکے رکھنے کی ہے۔ میری ذمہ داری صرف تمہارے تک محدود تھی۔ اب تم مر جاؤ گے تو میری ڈیوٹی بھی ختم ہو جائے گی۔

7 فروری 2018 کو ہری پور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے بالآخر مشال خان قتل کیس کا فیصلہ سنا دیا جس کے تحت جماعت اسلامی کی طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ سے رکھنے والے ایک ملزم عمران علی کو جرم ثابت ہونے پر پھانسی کی سزا سنائی گئی، پانچ مجرمان کو عمر قید کی سزا سنائی گئی، 25 مجرموں کو چار چار سال کی قید سنائی گئی جبکہ 26 کو ناکافی ثبوتوں کی بنا پر رہا کر دیا گیا۔

بے چین حلقوں میں کچھ نہ کچھ امید کی لہر پیدا ہوئی کہ چلیں آدھا ہی سہی، انصاف تو ہوا۔ مشال خان کے وکیل شہاب خٹک کا بھی کہنا تھا کہ سمجھ نہیں آ رہی جن لوگوں کو رہا کیا گیا، انہیں کس بنیاد پر کیا گیا جبکہ اگر مجمع کسی کو مارنے کیلئے اکٹھا ہوا ہے تو ہر شخص اس میں ملوث ہے اور اگر ویڈیوز میں چہرے پہچانے جا سکتے ہیں تو پھر انہیں چھوڑنے کا جواز ہی نہیں پیدا ہوتا۔ خیر جن لوگوں کو سزا سنائی گئی ان کے حوالے سے تسلی ہو گئی کہ چلیں اقبال لالہ کا مقدمہ کچھ تو معتبر ہو گیا اور عدالت نے ایک بے رحمی پر مجرمان کو سزائیں سنا دیں۔ یہ ایک اچھی روایت ہے کہ ظلم ہو تو انصاف بھی نظر آئے اور سزائیں ہوں گی تو ایسے واقعات رکیں گے یا کم از کم تعداد میں گھٹ ضرور جائیں گے۔ گھٹن کے ماحول میں یہ فیصلہ تازہ ہوا کا جھونکا بن کر آیا تھا۔

ابھی یہ تذبذب چل ہی رہا تھا کہ رہا ہونے والے 26 ملزمان کا مردان میں والہانہ استقبال کیا گیا۔ اس استقبال میں سراج الحق صاحب کی جماعت اسلامی، مولانا فضل الرحمان کی جمعیت علمائے اسلام اور مولانا سمیع الحق کی جمعیت علمائے اسلام پیش پیش تھیں۔ مولانا سمیع الحق وہی شخصیت ہیں جن کے مدرسے کیلئے خیبر پختونخوا حکومت ہر سال کروڑوں کی امداد دیتی ہے۔ چنانچہ اس استقبال میں رہا ہونے والے حضرات نے مشال کے خلاف نعرے لگائے، اسے گستاخ قرار دیا اور رہائی پانے کی بنیاد پر خود کو غازی کہہ کے پکارا۔ ان رہا ہونے والے حضرات نے اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ آئندہ بھی اس طرح کے قتل جاری رکھیں گے اور اللہ ہم سے وہ کام لے رہا ہے جس کے بارے میں بڑے بڑے بھی صرف جستجو ہی کر سکتے ہیں۔ سارا ہجوم ان نعروں میں یک زبان تھا اور تینوں مذہبی فرنچائزز کے عہدیدار بھی نعرے لگوانے میں آگے آگے تھے۔

نادان لوگوں نے یہ منظر دیکھ کر بھی امیدیں لگائیں کہ ایسے اشتعال انگیز بیان دینے پر ان لوگوں کو عدالت کی طرف سے نوٹس جاری کئے جائیں گے اور انہیں دوبارہ سے سزائیں سنائی جائیں گی کیونکہ وہ اپنی زبانوں سے اقرار کر رہے ہیں کہ انہوں نے مشال کو مارا تھا اور آئندہ بھی مشال جیسوں کو قتل کر کے اپنی جنت پکی کرتے رہیں گے مگر ایسا کچھ ہونا تھا اور نہ ہی ہوا۔ الٹا یہ ہوا کہ 27 فروری 2018 کو پشاور ہائی کورٹ کے ایبٹ آباد سرکٹ بنچ نے سزا پانے والے 25 مجرمان کو بھی ضمانت پر رہا کرنے کا حکم جاری کر دیا۔

اس کیس کا فیصلہ آنے کے بعد مشال خان کے والد اور خیبر پختونخوا حکومت نے بھی رہائی پانے والوں کے خلاف اپیلیں دائر کی تھیں مگر پشاور ہائی کورٹ نے یہ ساری اپیلیں ایک ساتھ سننے کے بجائے چپ چاپ مجرمان کی اپیلیں سنیں اور انہیں ضمانت پر رہا کر دیا۔ مشال خان کے وکیل شہاب خٹک کہتے ہیں کہ ہمارے لئے یہ فیصلہ انتہائی اچانک تھا اور ہمارے گمان میں بھی نہیں تھا کہ یکطرفہ اپیلیں سن کر انہیں نپٹا بھی دیا جائے گا۔ یہ پشاور ہائی کورٹ کا عُجلت میں دیا گیا فیصلہ ہے جس کا معاشرے، قانون کے طالب علموں اور مشال کے گھر والوں پر برا اثر پڑے گا۔

شہاب خٹک کا کہنا تھا کہ کسی بھی ایسے مجرم کو ضمانت دیتے ہوئے بار بار سوچا جاتا ہے جس کے بارے میں خطرہ ہو کہ وہ رہا ہو کر پہلے والا جرم دوبارہ سے کرنے کے بارے میں سوچ سکتا ہے۔ اب یہ دوبارہ سے کرنے کا خطرہ تو ہم پہلے ہی مردان انٹرچینج پر رہا ہونے والے حضرات کے استقبال میں دیکھ سکتے ہیں جب وہ سینہ ٹھونک کر کہہ رہے تھے کہ اللہ نے ہم سے یہ کام لیا ہے اور ایسے گستاخوں کے ساتھ آئندہ بھی ایسا ہی کرتے رہیں گے۔

حیرانگی ہوتی ہے کہ جو باتیں عام لوگوں کی سمجھ میں آسانی سے آ جاتی ہیں وہ پشاور ہائی کورٹ ایبٹ آباد بنچ کے دو فاضل ججوں جسٹس لال خان اور جسٹس عتیق شاہ کی سمجھ میں کیوں نہ آئیں؟ یہ جج صاحبان کیا کسی اور دنیا کے باسی ہیں جن کو زمینی حقائق بھی نظر نہیں آتے؟

دوسری جانب کل ہی سپریم کورٹ نے بھی وہ ازخود نوٹس نمٹا دیا جو اس نے مشال قتل کیس کے حوالے سے لے رکھا تھا۔ سپریم کورٹ کا مؤقف یہ تھا کہ چونکہ اس کیس میں سزائیں سنائی جا چکی ہیں اس لئے اس ازخود نوٹس کو خارج کیا جاتا ہے۔ ادھر سپریم کورٹ کی جانب سے سزائیں سنائے جانے کی بنیاد پر یہ ازخود نوٹس خارج ہوا اور ادھر پشاور ہائی کورٹ نے مجرموں کو ضمانتیں دے دیں۔ اسے آناً فاناً انصاف بھی کہا جا سکتا ہے۔ ایک طرف آناً اور دوسری طرف فاناً ہو گیا۔

اب پھر اپیلیں ہوں گی اور ضمانتیں منسوخ کرانے کی کوششیں ہوں گی۔ جن ملزمان نے ضمانتیں حاصل کی ہیں وہ سوچ رہے ہیں کہ ایک درخواست مزید فائل کر کے مقدمے سے انسداد دہشت گردی کی دفعات کو خارج کرا لیا جائے۔ رسہ کشی چلتی رہے گی، جیتے گا وہی جو زیادہ با اثر ہوگا اور یہ تو اندھے کو بھی نظر آ رہا ہے کہ اس کیس میں کون زیادہ با اثر ہے۔

اگر آپ مردان انٹرچینج پر ہزاروں کے استقبالی ہجوم کے سامنے کھڑے ہو کر سینہ ٹھونک کر مشال خان کو گستاخ ہونے پر قتل کرنے کا اقرار کرتے ہوئے باعزت بری ہونے پر خود کو غازی کہہ رہے ہیں، آئندہ کیلئے بھی ایسی کارروائیوں کیلئے تیار ہیں اور کوئی آپ کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا تو آپ کے با اثر ہونے کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو گا!

یہ تکلیف دہ حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں قانون کمزوروں کیلئے پھندا، مکڑی کا جالا جبکہ با اثر اور طاقتور لوگوں کیلئے موم کی گُڑیا سے زیادہ کچھ حیثیت نہیں رکھتا۔




یہ مضمون فروری 2018 میں 'ایک روزن' ویب گاہ پر شائع ہوا تھا۔

خضر حیات فلسفے کے طالب علم ہیں اور عالمی ادب، سنیما اور موسیقی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ وہ نیا دور کے ساتھ بطور تحقیق کار اور لکھاری منسلک ہیں۔