خود کشی یا مدرسہ میں جنسی زیادتی کے بعد قتل؟ پشاور میں 12 سالہ مدرسہ طالب کی پنکھے سے لٹکی لاش برآمد

11:53 AM, 13 Aug, 2020

نیا دور

مساجد اور مدرسوں میں بچوں پر بیہمانہ تشدد اور جنسی استحصال کے واقعات عام ہیں۔ اور ان میں اکثر اسی مدرسوں کے منتظم، مولوی اورعلما شامل ہوتے ہیں۔


انڈیپینڈنٹ اردو کی خبر کے مطابق پشاورمیں یکہ توت تھانے کی حدود میں منگل کو ایک مسجد سے 12 سالہ بچے کی لاش برآمد ہونے کے بعد مسجد کے امام سمیت پانچ افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے  ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی جا چکی ہے۔


ایف آئی آر کے مطابق منگل کو یکہ توت تھانے کو اطلاع موصول ہوئی کہ رشید گڑھی گاؤں کی مسجد عمرِ فاروق میں ایک طالب علم کو قتل کردیا گیا ہے اور واقعے کو خودکشی کا رنگ دے کر پولیس یا علاقہ مجسٹریٹ کو اطلاع دیے بغیر اس کو خفیہ طور پر دفنانے کی کوشش کی گئی۔


تفتیش کے دوران مقتول کے ماموں زاد عبدالمالک نے پولیس کو بتایا کہ لاش 12 سالہ مصلح الدین کی ہے، جن کا تعلق افغانستان سے تھا۔ یہ پانچ لڑکے پشاور کے مختلف مدارس میں دینی علوم حاصل کر رہے تھے۔


انڈپینڈنٹ اردو نے ایف آئی آر  کے حوالے سے لکھا ہے کہ  مدرسے کے طالب علم عبدالمالک نے پولیس کو بتایا کہ رات مسجد عمرِ فاروق میں گزارنے کے بعد نماز فجر کے بعد سب اپنے اپنے مدارس جاتے تھے۔  تاہم 11 اگست کو انہیں جیسے ہی اطلاع ملی کہ مصلح الدین نے خود کشی کی ہے تو وہ فوراً اپنی رہائش گاہ پہنچ گئے۔


انہوں نے قاری بسم اللہ سے چابی حاصل کرکے مسجد کی دوسرے منزل کا دروازہ کھولا، جہاں برآمدے میں مصلح الدین کی لاش رسی کے ساتھ لٹکی ہوئی تھی۔


 میڈیا کو دستیاب  ایف آئی آر میں  مزید لکھا گیا کہ عبدالمالک اور دیگر ساتھی اصل حقائق چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ دوسری منزل پر جانے کے لیے کوئی راستہ نہیں تھا۔ علاوہ ازیں مقتول کے لیے خود باہر سے دروازے کو تالا لگانا ممکن نہیں تھا جبکہ مقتول کی عمر کم ہونے کی وجہ سے وہ خود کو پھانسی پر نہیں لٹکا سکتا تھا۔


 انڈیپینڈنٹ نے بتایا کہ مقتول بچے کے پاکستان میں لواحقین موجود  نہیں اور اس کا ایک ہی رشتہ دار یعنی ماموں زاد بھائی عبدالمالک ان کے ساتھ یہاں موجود تھا۔ یہ سب پاکستان کے مدارس میں دینی علوم حاصل کرنے آئے تھے۔ ایس ایچ او نے مزید بتایا کہ اصل مجرم تک پہنچنے کے لیے واقعے کی تمام پہلوؤں سے تفتیش جاری ہے

مزیدخبریں