اگر بات کی جائے راحت اندوری کے فلمی گیتوں کی تو ان میں رومانیت اور پیار کا ایسا احساس ملتا ہے کہ گمان ہی نہیں ہوتا کہ یہ اُسی شاعر کے قلم کا شاہکار ہیں جو معاشرتی ناہمواری اور تفریق پر لفظوں کے وار کا ہنر جانتا ہے۔ یقین نہ آئے تو فلم ‘سر’ کا گیت ‘آج ہم نے دل کا ہر قصہ تمام کر دیا ہے’ یا پھر ‘خودار’ کا ‘تم سا کوئی پیارا کوئی معصوم نہیں’ یا پھر ‘مرڈر’ کا ‘دل کو ہزار بار روکا’ یا پھر ‘قریب’ کا ‘چوری چوری جب نظریں ملیں’۔ اسی طرح کون بھول سکتا ہے ‘بھومرو بھومرو’ کو جو پرینتی زینتا پر فلمایا گیا۔ جبکہ ‘عشق’ کے رومان اور محبت کا تحفہ دیتے ‘نیند چرائی میری’ یا پھر ‘عشق ہوا’ ہر گانا محبت اور پیار کی مٹھاس سے گندھا ہوتا۔
راحت اندوری کا ہی یہ کمال تھا کہ انہوں نے فلمی نغمہ نگاری میں اپنی الگ اور منفرد چھاپ چھوڑی۔ یہ بھی حسن اتفاق ہے کہ راحت اندوری نے سب سے زیادہ جس موسیقار کے ساتھ کام کیا وہ انو ملک ہیں۔ 'منا بھائی ایم بی بی ایس’ کا جہاں انہوں نے چلبلا سا ٹائٹل سونگ لکھا وہیں اسی تخلیق میں دھیمے سروں والا ‘چھن چھن’ والا گانا بھی ذہنوں سے فراموش نہیں ہو پاتا۔ ممکن ہے راحت اندوری کو فلمی نغمہ نگاری میں وہی مقام ملتا جو آنند بخشی، جاوید اختر، مجروح سلطان پوری یا پھر گلزار کو حاصل ہے۔ لیکن خود راحت اندوری اس فلمی دنیا کی رنگینیوں سے اکتاہٹ کا شکار ہوگئے تھے۔ خاص طور پر ایسے میں جب ایک پروڈیوسر انہیں ایک شعر، اپنے گیت میں شامل کرنے پر بضد ہو گیا۔
راحت اندوری نے جب وہ شعر دیکھا تو وہ مرزا غالب کا تھا۔ پروڈیوسر کو سمجھایا کہ میں کیسے اپنے گیت میں غالب کا شعر شامل کر لوں، لوگ مذاق اڑائیں گے، یہ چوری ہوگی۔ لیکن پروڈیوسر کو نجانے کیوں یہ شعر پسند آ گیا تھا جبھی وہ اڑ گیا۔ اور یہاں تک کہ کہہ گیا کہ دس بیس ہزار دے کر ایسا کیوں نہ کرلیں کہ غالب سے یہ شعر خرید لیا جائے۔ راحت اندوری کو غالباً اسی لمحے احساس ہوا ہوگا کہ وہ جس شعبے کے لیے اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا رہے ہیں وہاں کس قدر ‘قابل افراد’ ہیں۔
ان کا ماننا تھا کہ فلمی نغمہ نگاری دراصل دوسروں کے لیے لکھی جاتی ہے، ہیرو اور ہیروئن اور فلم کی کہانی کے اعتبار سے شاعری کے گل کھلائے جاتے ہیں اور یہ سب کرتے ہوئے کہیں وہ اپنے شوق سے بہت آگے نکل گئے تھے، یہی وجہ ہے کہ انہیں لگتا تھا کہ وہ اب اپنے لیے شاعری نہیں کر رہے جو ان کا جنون اور شوق تھا۔ جبھی انہوں نے دھیرے دھیرے فلمی نغمہ نگاری سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔
عوامی شاعر کے یوں تو کئی اشعار زبان زد عام ہوئے لیکن ٹک ٹاک پر ان کا یہ مصرعہ ‘بلاتا ہے مگر جانے کا نہیں’ جس پر سبھی نے اپنے اپنے انداز سے اداکاری دکھائی اور یہ سب سے زیادہ وائرل ہونے والا مصرعہ بن گیا۔ راحت اندوری کے مطابق لڑکپن میں ان کے اندر بیک وقت فٹ بالر، مصور، استاد اور شاعر ایک دوسرے سے متصادم تھے۔ دل کہتا کہ مصور بن تو دماغ فٹ بالر یا ہاکی کھلاڑی، لیکن پھر نجانے ان کے اندر بیٹھے ایک شاعر نے سب کو شکست دے کر انہیں اس شعبے میں دھکیل دیا۔ اسی شوق اور جنون کے خاطر انہوں نے مصوری کے لگے لگائے پیشے کو خیرباد کہا تھا۔
راحت اندوری کا اشعار پڑھنے کا مخصوص لب و لہجہ، ایک ایک لفظ کو چبا کر یا پھر زور دے کر بیان کرنے کا اپنا ہی الگ لطف رہا۔ اس انداز کو اختیار کرنے پر راحت اندوری کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے شاعری کا آغاز کیا تو اُن دنوں شعرا کرام ترنم کے ساتھ مشاعرہ پڑھتے۔ یہی کچھ راحت اندوری بھی کرتے، ایک کلام لکھا تو اس کا ترنم نہ بن سکا۔ احباب کو اشعار سنائے اور اپنا مسئلہ بیان کیا تو انہوں نے یہی مشورہ دیا کہ وہ جس طرح سنا رہے ہیں ایسے ہی تحت اللفظ کیوں بیان نہیں کرتے، بس پھر کیا تھا راحت اندوری کا یہی انداز بیان اس قدر مقبول ہوا کہ بیشتر شعرا ان کی نقش قدم پر بھی چلے۔
راحت اندوری کو شکوہ یہ بھی رہا کہ مشاعروں کا وہ معیار نہیں رہا، جو اس کا خاصہ تھا، سامعین اب ‘واہ واہ’ اور ‘مکرر’ کے بجائے تالیوں اور سیٹیوں سے پذیرائی کرتے ہیں۔ یہ جان کر حیرت ہوگی کہ راحت اندوری جب بھی کوئی اشعار لکھتے تو سب سے پہلے اپنی شریک سفر کو سناتے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر بیگم صاحبہ کو پسند آجاتا تو وہ سمجھ جاتے یہ اشعار، سننے والوں پر بھی گہرا اثر ڈالیں گے۔
کتنی عجیب بات ہے کہ عوامی مقبولیت کے باوجود راحت اندوری برسوں تک خود پر یقین نہ کرسکیں کہ وہ شاعر ہیں کہ نہیں، اس حوالے سے وہ دلچسپ قصہ یہ بیان کرتے کہ جب انہیں کسی شعر کی آمد ہوتی تو یار دوستوں کو سنانے کے بعد ان سے دریافت کرتے کہ کہیں ان اشعار کی زمین کسی اور شاعر کے کلام سے تو نہیں مشابہت رکھتی۔ ان کے مطابق بچپن سے دیوان غالب پڑھا، اور ایک ایک شعر ذہن میں رچ بس گیا، لیکن جب بھی وہ دیوان غالب کھولتے اور اس کے مطالعے کے بعد ہر شعر کے نئے معنی اور تشریح ان پر عیاں ہوتی۔ اسی بنا پر وہ دیوان غالب کو اردو شاعری کا بہترین مجموعہ قرار دیتے۔
راحت اندوری درحقیقت ایک حساس اعتدال پسند شاعر تھے جو بھارتی مسلمانوں کے لیے درد، تکلیف اور فکر رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ نریندر مودی کے شہریت قوانین کے خلاف وہ مظاہروں میں بھی شریک رہے۔ جبکہ کئی بار ان پر اپنے اشعار کے ذریعے انتہا پسندوں پر بھی تنقید کے نشتر بھی چلائے۔
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے
اردو کی زبوں حالی کا ذمے دار وہ اہل زبان کو ہی قرار دیتے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ خاندان جہاں اردو بولی سمجھی جاتی ہے۔ وہاں اب دھیرے دھیرے اس زبان کا خاتمہ ہورہا ہے۔ انگریزی زبان میں گفتگو عام ہورہی ہے۔ کوشش یہ کرنی چاہیے کہ اردو دان طبقہ خود بچوں کو اردو میں گفتگو اور لکھنے پر زور دے۔ وہ اس بات کا اعتراف بھی کرتے کہ اردو سے محبت نے ہی انہیں شاعر بھی بنایا۔ شعور اور ضمیر کو جھنجوڑنے والا یہ شاعر یوں تو خالی ہاتھ ہی اس دنیا سے گیا لیکن اپنے اشعار کا وہ گلدستہ چھوڑ گیاجو صدیوں تک مہکتا رہے گا۔
مزہ چکھا کے ہی مانا ہوں میں بھی دنیا کو
سمجھ رہی تھی کہ ایسے ہی چھوڑ دوں گا اسے