پاکستان مخالف ٹرینڈز رپورٹ: مالِ مفت، دلِ بے رحم

10:10 AM, 13 Aug, 2021

علی وارثی
حکومتِ پاکستان کی جانب سے ریاستِ پاکستان کے خلاف ٹوئٹر پر ہونے والے پراپیگنڈا سے متعلق ایک رپورٹ جاری کی گئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ کون کون سے ٹوئٹر ٹرینڈز میں پاکستان مخالف ٹوئیٹس کی گئیں اور ان میں پاکستان کے ہمسایہ ممالک بھارت اور افغانستان سے ٹوئیٹس کر کے ان ٹرینڈز کو تقویت پہنچائی گئی۔ 135 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں سے قریب 80 صفحات پر ٹوئیٹس کے سکرین شاٹس لے کر ان کو پیسٹ کر دیا گیا ہے۔

کون سی ٹوئیٹس کے سکرین شاٹس لیے گئے ہیں؟

ٹوئٹر پر ایک سرسری سی تحقیق سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ان ٹرینڈز میں موجود ٹاپ ٹوئیٹس ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سی ایسی ٹوئیٹس کے سکرین شاٹس بھی رپورٹ کا حصہ بنا دیے گئے ہیں جن میں پاکستان مخالف ٹرینڈ کا استعمال کرتے ہوئے اس ٹرینڈ کے خلاف بات کی گئی ہے اور لوگوں کی جانب سے اس مثبت بات کو ملنے والی پذیرائی کی وجہ سے یہ ٹوئٹر کے الگورتھم نے اس ٹرینڈ میں ٹاپ ٹوئیٹس میں شامل کر دی ہیں۔

جمعرات کی رات فواد چودھری نے جیو نیوز پر شاہزیب خانزادہ سے بات کرتے ہوئے اس کی وضاحت فرمائی۔ انہوں نے پروگرام کے اینکر پر بارہا تنقید کی کہ آپ نے رپورٹ میں بیان کیے گئے میکنزم کو پڑھا نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ شاہزیب خانزادہ کے سوالات کچھ غیر واضح ہوں لیکن فواد چودھری کو اس سوال کا جواب تو دینا چاہیے کہ محض ٹاپ ٹوئیٹس ڈال کر لوگوں کو رپورٹ کے اوپر سوالات اٹھانے کا موقع کیوں دیا گیا۔ شاہزیب خانزادہ پر انہوں نے بارہا الزام لگایا کہ وہ رپورٹ کو discredit کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ درجنوں افراد جن کی ٹوئیٹس کے سکرین شاٹس اس میں کاپی پیسٹ کیے گئے ہیں وہ ٹوئٹر پر یہ سوال پہلے ہی اٹھا رہے ہیں کہ ان کی مثبت ٹوئیٹس یہاں دکھا کر انہیں بلاوجہ غدار ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ فواد چودرھری صاحب بالکل یہ کہہ سکتے ہیں کہ میکنزم کو پڑھے بغیر تنقید کی جا رہی ہے لیکن کیا وہ جا کر ہزاروں واٹس ایپ میسجز کا بھی جواب دیں گے جو رپورٹ شائع ہونے کے بعد سے ملک بھر میں شیئر کیے جا رہے ہیں۔ ان میں نہ تو رپورٹ کا میکنزم لکھا ہے اور نہ ہی فواد چودھری کی وضاحت ساتھ نتھی کی گئی ہے۔ صرف صحافی یا سیاستدان کا نام لکھا ہے اور ساتھ بتایا گیا ہے کہ ان کا نام پاکستان مخالف ٹوئیٹس کرنے والوں پر شائع کی گئی رپورٹ میں شامل ہے۔

رپورٹ میں اپوزیشن جماعتوں کے ٹرینڈز

رپورٹ کے اندر پاکستان مسلم لیگ نواز، پاکستان پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ٹرینڈز بھی دکھائے گئے ہیں۔ ان میں حکومت پر تنقید ضرور موجود ہے لیکن کوئی ریاست مخالف بات نہیں کی گئی۔ فواد چودھری کے مطابق یہ ٹرینڈز اس لئے شامل کیے گئے ہیں کیونکہ ان میں بھارت یا افغانستان سے ٹوئیٹس کی گئیں۔ شاہزیب خانزادہ کے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ ایک ٹرینڈ #یہ_جوکیمراگردی_ہے میں قریب 10 ہزار ہندوستانیوں نے حصہ لیا۔ فواد چودھری کا کہنا تھا کہ یہ اس رپورٹ میں لکھا گیا ہے۔ شاہزیب خانزادہ نے پوچھا کہ رپورٹ میں کہاں لکھا ہے کہ دس ہزار ٹوئیٹس ہندوستانیوں نے کیں تو فواد چودھری اس کا جواب دینے سے قاصر تھے۔

سوال لیکن یہاں جو زیادہ اہم ہے وہ یہ ہے کہ اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ ٹوئیٹس کہاں سے کی گئیں؟ اگر یہ ٹوئیٹس ہندوستان سے بھی کی گئیں تو ریاست مخالف تو کسی صورت نہیں تھیں۔ نہ ہی ٹرینڈ میں ریاست مخالف کوئی جملہ ہے۔ آخر ایسے کسی ٹرینڈ کو اس رپورٹ میں شامل کرنے سے کیا مقصد حاصل کیا جا رہا ہے؟ حکومت کی خدمت تو ہو رہی ہے کہ بھارت سے تحریکِ انصاف حکومت کے خلاف اک ٹرینڈ میں مبینہ طور پر حصہ لیا جا رہا ہے لیکن اس میں ریاستِ پاکستان کی کیا خدمت ہے؟ کیمرے تو سینیٹ میں لگے ہوئے تھے۔ پکڑے مصطفیٰ نواز کھوکھر اور مصدق ملک نے تھے۔ یہاں victims مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی خود کو گردان سکتی ہیں لیکن تحریکِ انصاف حکومت کی جانب سے مبینہ طور پر کی گئی الیکشن ضابطۂ اخلاق کی ایک خلاف ورزی کی تشہیر کو ریاست مخالف ٹرینڈز کی رپورٹ میں شامل کرنے سے کیا مقاصد حاصل کیے جا رہے ہیں، یہ فواد چودھری صاحب ہی بتا سکتے ہیں۔ یا شاید وہ بھی نہیں بتا سکتے۔ کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کا اور کوئی مقصد ہو ہی نہیں سکتا سوائے اپنے سیاسی مخالفین کی کردار کشی اور ان پر غداری کا الزام لگانے کے۔

پشتون تحفظ تحریک پر خصوصی نظرِ کرم

فواد چودھری نے شاہزیب خانزادہ کو طعنہ دیا کہ پی ٹی ایم کے خلاف کوئی بات ہو تو آپ کا دل دھڑکنے لگتا ہے۔ پی ٹی ایم پاکستان کی ایک سیاسی جماعت ہے۔ وہ پشتونوں کے حقوق کے لئے آواز اٹھاتی ہے۔ اگر اس کے بنائے گئے ٹرینڈز میں افغان شہری حصہ لے رہے ہیں تو یہ ان افغان شہریوں کی مرضی ہے۔ البتہ اگر پاکستان کے ریاستی مفادات کو نقصان پہنچانے کی کوئی مذموم کوشش ہو رہی ہے تو اسے ضرور روکا جانا چاہیے لیکن اس کے لئے ریاستِ پاکستان کے پاس پولیس، ایف آئی اے اور کئی ریاستی ادارے موجود ہیں جن کا صحافیوں اور سیاسی ورکرز کے خلاف استعمال کرنے سے پہلے بھی کبھی قطعاً دریغ نہیں کیا گیا۔ تو انہیں حرکت میں لائیے۔ یوں افراسیاب خٹک، بشریٰ گوہر جیسے سیاسی ورکرز، ندا کرمانی جیسے اساتذہ اور عمران خان جیسے صحافیوں پر غداری کے فتوے لگانے کے لئے لوگوں کو مواد فراہم نہ کریں۔

کیا ٹوئٹر ٹرینڈز سے حکومت بلاوجہ خائف ہے؟

یہ درست ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں سوشل میڈیا کو پراپیگنڈے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے اور ٹوئٹر ٹرینڈز کو اس حوالے سے بھرپور انداز میں استعمال کیا جاتا ہے۔ لہٰذا اس کا جواب آنا ضروری تھا۔ حکومتِ پاکستان کی نیت کو غلط نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن اپنے کام کو خود ہی discredit انہوں نے اپنی نااہلی اور کاہلی سے کر لیا ہے۔ ٹاپ ٹوئیٹس کے سکرین شاٹس نکال کر ورڈ فائل میں کاپی پیسٹ کرنا کالج کے طلبہ کی اسائنمنٹس میں بھی قابلِ قبول نہیں ہو سکتا۔ اور یہاں ریاست کی سطح پر یہ کام قصائیوں کے انداز میں کیا جا رہا ہے۔ لگتا تو یہی ہے کہ تحریکِ انصاف کے اپنے سوشل میڈیا ونگ میں بھی سرکاری کلرک قسم کے بندوں سے یہ کام لیا گیا ہے ورنہ اس جماعت کے پاس ایسے ایسے نابغے ہیں جو ان ٹرینڈز کی ایچی پیچی نکال کر فواد چودھری صاحب کے ہاتھ میں دے سکتے تھے۔ پھر کچھ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں نے سیاسی لچ بھی تلا اور سیاسی مخالفین کے ٹرینڈز کو بلاوجہ اس میں شامل کر کے بدنامی مول لی وگرنہ اس کی چنداں ضرورت نہ تھی۔ جب ریاست مخالف پراپیگنڈا ان ٹرینڈز میں موجود ہی نہیں تھا تو کیا فرق پڑتا ہے ریاست کو کہ وہ ٹرینڈز کہاں سے چلائے جا رہے تھے؟ یہ بس پارٹی قیادت کو خوش کرنے کا شاید ایک طریقہ تھا۔

فواد چودھری و ہمنوا سے گذارش ہے کہ یہ باریکی سے کرنے کے کام ہیں۔ پہلے تو اگر آپ کو اس طرح کے exposé کرنے کا شوق چرایا ہی ہے تو اس کے لئے ڈھنگ کے بندے رکھیں جنہیں یہ کام آتا ہو، اچھے سافٹ ویئر خریدیں، بھلے تھوڑے سے پیسے ہی لگ جائیں گے، ISPR سے لے لیں، یہ نیشنل سکیورٹی کا معاملہ ہے۔ دوسرا کام کرنے کا یہ ہے کہ ریاست کے دشمنوں پر فوکس کریں، اپنے شہریوں پر نہیں۔ اس سے آپ اپنا کام مشکل کر رہے ہیں، شہریوں کو شکوک و شبہات میں مبتلا کر رہے ہیں، اور دشمن ڈھونڈنے سے زیادہ دشمن بنانے کا کام کر کر رہے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ وزیرِ موصوف کو خود بھی ان چیزوں کا علم ہونا چاہیے تاکہ وہ اپنے نیچے سٹاف سے ان کی تنخواہوں اور مراعات کے مطابق کام لے سکیں۔ یہ عوام کا پیسہ ہے، اسے مالِ مفت دلِ بے رحم کی تصویر نہ بنائیں۔
مزیدخبریں