چیئرمین محمد ہمایوں کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے صحت کا اجلاس ہوا۔ سیکرٹری صحت کی پیشکش پر پیپلز پارٹی کے رکن کمیٹی سینیٹر بہرہ مند تنگی نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ کورونا کا معاملہ عوامی اہمیت کا ایک مسئلہ ہے،اس معاملے کو ان کیمرا کیوں کیا جائے؟ ۔
سیکرٹری صحت نے جواب دیا کہ کچھ ایسے معاہدے ہیں جن کو سب کے سامنے پبلک نہیں کر سکتے ، بہرامند تنگی نے کہا کہ کیا میڈیا کے سامنے بریفنگ سے ویکسین پر پابندی لگ جائیگی۔ سیکرٹری نے کہا کہ اگر بریفنگ دی تو پاکستان کو ملنے والی ویکسین بند ہوجائیں گی۔ کمیٹی نے اتفاق کیا کہ اس ضمن میں ان کیمرہ بریفنگ دی جائے۔
اجلاس میں سیکرٹری صحت نے صحت سہولت پروگرام سے متعلق کمیٹی کو بریفنگ میں کہا کہ صحت سہولیات پروگرام مختلف صوبوں میں چل رہا ہے تاہم سندھ اور بلوچستان میں یہ پروگرام نہیں چل رہا ۔ سندھ حکومت نے صحت سہولت پروگرام شروع کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے ، صحت کا کوئی بھی پروگرام ہوگا وہ صوبے خود کریں گے۔
سیکرٹری صحت نے کہا کہ سندھ میں تھر پارکر میں وفاقی حکومت صحت سہولت پروگرام کو پی ایس ڈی پی سے فنڈ کر رہی ہے۔ ڈائریکٹر صحت سہولت پروگرام محمد ارشد نے کہا کہ وفاق کے زیر اہتمام علاقوں کے لیے صحت سہولت پروگرام میں 5 ہزار 600 ملین روپے رکھے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان نے تمام صوبے کے لیے یونیورسل ہیلتھ پروگرام شروع کا فیصلہ کیا ہے۔
کرونا ویکسین پر 200 ارب خرچ کیئے گئے
نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کے سربراہ، وفاقی وزیر اسد عمر کا یکم اگست کو کہنا تھا کہ وفاقی حکومت 200 ارب روپے کورونا وائرس کی ویکسین کی خریداری پر خرچ کر رہی ہے، اب تک کورونا ویکسین کی 3 کروڑ سے زیادہ خوراکیں دی جا چکی ہیں۔
وفاقی وزیر اسد عمر نے وزیرِ اعظم عمران خان کے معاونِ خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ایسی صورتِ حال نہیں جو خطے کے دیگر ممالک میں ہے، کورونا وائرس کے باعث بھارت میں لوگ خوفزہ ہو گئے، اسپتالوں میں بیڈز کی کمی ہو گئی۔