سوات میں ایک دفعہ پھر سے طالبان منظم و مسلح انداز میں نمودار ہو رہے ہیں۔ پچھلے ہفتے انہوں ایک ویڈیو وئرل کی جس میں ڈی ایس پی مٹہ اور پاک فوج کے میجر کو یرغمال دکھایا گیا تھا۔ بعد ازاں ان کو لوکل جرگہ کے ذریعے رہا کروایا گیا۔ اس واقعہ نے ناصرف اس ریاستی دعوئوں کی نفی کی کہ فوجی آپریشنز کے ذریعے طالبان کے دہشتگردی کے انفراسٹرکچر کو ختم کرکے طالبان کی کمر توڑ دی گئی ہے بلکہ ایک بار پھر اس بحث کو چھیڑا ہے کہ کیا ریاست نے اپنی پالیسیوں بدل دیا ہے جس کی وجہ سے اس عفریت نے جنم لیا تھا؟
مذکورہ بالا واقعہ اور اس کے نتیجہ میں وادی سوات میں ایک بار پھر فوج اور دوسرے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بڑھتی ہوئے غیر معمولی موومنٹ نے علاقے میں خوف وہراس اور بے یقینی کی فضا پیدا کر دی ہے۔
اس سلسلے میں نیا دور نے ڈاکٹر محمد سلیم خان کا انٹرویو کیا جو نظر قارئین ہے۔
ڈاکٹر محمد سلیم خان، افضل خان لالہ کے فرزند ہیں جو پاکستان آرمی کی میڈیکل کور سے بطور بریگیڈئر ریٹائرڈ ہوئے اور اس وقت عوامی نیشنل پارٹی کی مرکزی ڈپٹی جنرل ہیں۔ میری توقع اور معروضی حالات کے برعکس ڈاکٹر سلیم نے بلا جھجک وخوف موجودہ صورتحال پر اپنا نقطہ نظر پیش کیا۔
نیا دور: ریاست خصوصاً فوج کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے طالبان کی کمر توڑ دی ہے تو وہ ٹوٹی ہوئی کمر کیساتھ واپس کیسے آئے؟
سلیم خان: اب تک اسٹیبلشمنٹ خصوصاً فوج کی طرف سے یہ وضاحت نہیں آئی کہ سوات کا تو افغانستان کیساتھ بارڈر بھی نہیں لگتا تو پھر یہ لوگ کیسے یہاں پہنچے؟ ریاست نے ان کے ساتھ مذاکرات کن شرائط پر کئے ہیں؟ طالبان نہ پہلے خود آئے تھے اور نہ اب۔ اور یہی سوالات عوام کے ذہنوں میں شکوک وشہبات اور بڑھاتے ہیں۔ اس حوالے سے میں آپ کو ایک وقعہ سناتا ہوں۔ سوات میں 2009 کے فوجی آپریشن کے بعد آرمی کے کچھ لوگ سروے کرنے آئے تھے۔ اتفاقاً اس وقت میں بھی سوات میں تھا تو وہ مجھے ملنے آئے اور کہنے لگے کہ ہماری رپورٹ کے مطابق سوات کے عوام تو کہہ رہے ہیں کہ آرمی اور طالبان ایک ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ ایسے واقعات بھی ہوئے جس نے ناصرف عوام بلکہ مجھے بھی کنفیوزڈ کیا۔ مثلاً میرے کزن ایواں خان اشاڑے (سابق صوبائی وزیر جن کے دو بھتیجوں کو طالبان نے ٹارگٹ کرکے شہید کر دیا تھا) کے گھر پر طالبان نے حملہ کیا لیکن اطلاع ملنے کے باوجود بھی فوج نے کوئی حرکت نہیں کی۔ حالانکہ ایک کمپنی تین چار سو میٹرز کے فاصلے پر تعینات تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ 2007 میں بھی جب حالات خراب کرکے خوف و ہراس پھیلانا مقصود تھا تو سب سے پہلے پولیس کو ٹارگٹ کیا، پھر خوانین، قومی مشیران اور اس کے بعد عوام کی باری آئی۔ لیکن اس دفعہ عوام اس دائو پیچ سے باخبر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سوات کے عوام نے سڑکوں پر احتجاج اور امن کیلئے مظاہرے کئے۔
نیا دور: یہ سب کچھ ایک بار پھر کیوں دہرایا جا رہا ہے؟ کیا کوئی نیا ایجنڈا ہے، لوکل ہے یا کچھ اور؟
سلیم خان: یہ اس پرانے کھیل کا سلسلہ لگ رہا ہے۔ بین الاقومی طاقتیں افغانستان سے لے کر یہاں تک اس خطے میں اپنے مذموم مقاصد اور مفادات کی جنگ کو استعمال کرکے غیر مستحکم رکھنا چاہتے ہیں۔ پہلے مغرب اور روس کے مفادات کی جنگ میں اس خطے کو تباہ کیا گیا اور اب امریکہ اور چین کے مفادات کی بھینٹ چڑھانا چاہتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ہماری اپنی ریاست کی پالیسی اس میں معاون ہے۔
نیا دور: آپ کے خیال میں حالیہ سالوں میں اس پالیسی میں کوئی شفٹ آیا ہے یا نہیں؟
سلیم خان: میرا نہیں خیال کہ کوئی خاص شفٹ آئی ہے۔ ہم نے شروع میں جو غلطی کی، اس کا خمیازہ آج بھی بھگت رہے ہیں۔ ہماری ریاستی پالیسی یہ رہی ہے کہ ایک بلاک کا حصہ ہوتے ہیں یا دوسرے کا۔ ہم نے سوویت یونین کی دعوت ٹھکرا کر امریکہ کا انتخاب کیا حالانکہ اس وقت بھی ہمیں غیر وابستہ ہو کر سیکورٹی سٹیٹ کی بجائے اکنامک سٹیٹ ماڈل کے طرف جانا چاہیے تھا اور اب بھی۔ اب موجودہ صورتحال میں نہ ہمارا گزرا امریکہ کے بغیر ہے اور نہ چین کے۔ ان میں کسی ایک کو چھوڑ دوسرے کا ساتھ دینا نقصان دہ ہوگا۔ آج بنگلا دیش معاشی طور پر کہاں کھڑا ہے اور ہم کہاں۔ ہمیں دنیا کا ٹھیکہ چھوڑ کر اپنے ملک اور عوام کیلئے سوچنا چاہیے۔ ہمیں اس شیطانی دائرہ سے نکل کر اپنی اقتصادیات پر توجہ دینا چاہیے، کمزور معشیت کے ساتھ آپ کچھ بھی نہیں کر سکتے۔
نیا دور: آپ کے خیال میں اس وقت صورتحال کو قابو کرنے کیلئے کیا اقدامات ہونا چاہیں؟
سلیم خان: سب سے پہلے تو ریاست کو اپنی رٹ بر قرار رکھنا چاہیے۔ دوسرے ریاستیں اپنی رٹ کے معاملے میں بہت حساس ہوتی ہیں۔ ایمل کانسی نے امریکہ میں ریاستی اہلکاروں پر حملہ کیا اور امریکہ نے پاکستان آکر اس کو پکڑ کر سزا دی لیکن یہاں ایک ڈی ایس پی زخمی کرکے یرغمال بنایا گیا اور ریاست نے مقامی لوگوں سے جرگہ کروا کر مغویوں کو رہائی دلوائی۔ اس وقت ان کو کنٹرول کرنا بہت آسان ہے۔ اگر پولیس کو فری ہینڈ مل جائے تو وہ ان کو کنٹرول کر سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ اے این پی اس صورتحال پر 16 اگست کو باچا خان مرکز پشاور میں آل پارٹیز جرگہ منعقد کر رہی ہے جس میں سیاسی جماعتوں کے علاوہ سول سوسائٹی اور دانشوروں کو بھی مدعو کیا گیا ہے تاکہ آئندہ کیلئے لائحہ عمل وضح کیا جائے۔ مزید براں، خواہ سوات کے لوگوں نے ہمیں منتخب نہیں کیا لیکن پھر بھی ہم اپنے لوگوں کو اکیلے نہیں چھوڑ سکتے اور ان کے ساتھ کھڑے ہیں اور رہینگے۔
نیا دور : کیا اب تک آپ کو یا آپ کے خاندان کے کسی فرد کو کوئی بلا واسطہ یا بلواسطہ دھمکیاں ملی ہیں؟
سلیم خان: اب تک تو طالبان سے کوئی دھمکیاں نہیں ملیں لیکن گذشتہ روز مقامی ایس ایچ او نے پیغام دیا کہ آپ ایک دو ہفتوں تک اپنی موومنٹ محدود کر دیں۔ بھلا ہم سیاسی لوگ ہیں، اس صورتحال میں میں کیسے ایسا کر سکتا ہوں۔