سوات پر عسکریت پسندوں کے سائے: کیا جنت نظیر وادی سوات ایک بار پھر کشیدگی کی جانب گامزن ہے؟

03:39 PM, 13 Aug, 2022

عبداللہ مومند
یہ 2021 دسمبر کی ایک بھیگی اور ٹھندی شام تھی۔ میں کچن میں سردی کی شدت کم کرنے کے لئے آگ کے پاس بیٹھ کر بچوں کے ساتھ چائے پینے میں مگن تھا۔ اسی دوران میرے موبائل فون کی گھنٹی بجی اور جیسے ہی موبائل سکرین پر نظر گئی تو پتہ چلا نمبر افغانستان کا تھا۔ ایک لمحے کے لئے میں ہچکایا لیکن اگلے لمحے میں نے کال ریسیو کی تو دوسری جانب سے بھاری اور بلند آواز میں کسی نے "السّلامُ علیکم ورحمةُ اللہ وبركاته" کہا اور میں نے سلام کا جواب دیا۔ دوسری جانب سے کال پر اس شخص نے مجھ سے میرے اور میرے بچوں کی صحت کے بارے میں پوچھا اور میں حیرانگی سے 'سب اچھا ہے' کا جواب دیتا رہا۔ اس کے بعد انہوں نے آپنا تعارف کرانا شروع کیا کہ میرا تعلق تحریک طالبان پاکستان سے ہے اور ہم جہاد کا مقدس فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔ اس کار خیر میں آپ کا حصہ چاہیے۔ میں نے حیرانگی سے سوال کیا کہ میرا حصہ کیسے؟ انہوں نے کہا کہ آپ کو اللہ نے مالی استقامت سے نوازا ہے، اس لئے آپ جہاد میں آپنا فریضہ یعنی مالی حصہ ادا کریں اور تحریک طالبان پاکستان کو پچاس لاکھ روپے ادا کریں۔ میں نے حیرانگی سے جواب دیتے ہوئے کہا 'پچاس لاکھ روپے'؟ میں کہا سے لاؤں گا؟ انہوں نے کہا کہ ہمیں آپ کے ہوٹلوں کی تعداد، گاڑیوں کی تعداد اور مالی اثاثوں کا پتہ ہے اور دوبارہ کال کرنے کا کہہ کر کال منقطع کر دی۔ میرے اوسان خطا ہو گئے۔ مجھے پوری رات نیند نہیں آئی اور اگلے دن میں نے آپنی سم بند کردی۔

کچھ روز کے بعد مجھے ایک اور نامعلوم نمبر سے کال آئی اور جیسے ہی میں نے ریسیو کی، دوسری طرف آواز آئی، آپ کو انسانوں کی زبان سمجھ نہیں آ رہی ہے؟ اس کے بعد انہوں نے میرے تین دن کی مصروفیات کی تفصیلات بتائیں کہ تم صبح سے لے کر شام تک کس کس جگہ پر گئے تھے۔ تین دن کا وقت دے کر انہوں نے اس دھمکی کے ساتھ کال بند کی کہ اگر تین دن میں پیسے ادا نہیں کیے تو پھر گھر والے تمہاری لاش پر ماتم کریں گے کیونکہ ہمارے ٹارگٹ کلر ہر وقت آپ کے آس پاس ہی موجود رہتے ہیں۔ میں اسی لمحے زمین پر بیٹھ گیا اور میرے دل کی دھڑکن اتنی بے قابو ہوئی جیسے میرا دل سینے سے باہر آ رہا ہو۔ میں نے دوستوں سے مشورہ کیا اور انہوں نے یہی کہا کہ بھتہ ادا کرو اور اگر پولیس میں شکایت درج کرانے جاؤ گے تو زندگی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ اس کے بعد اگلے دو دنوں میں حوالے (ہنڈی) کے ذریعے میں نے پیسے ادا کیے۔

یہ کہانی سوات کے ایک تاجر کی ہے جو گذشتہ دو دہائیوں سے ہوٹلز اور ٹرانسپورٹ کے کاروبار سے وابستہ ہے۔ سوات تاجر ایسوسیشن کےایک عہدیدار نے نام نہ بتانے کی شرط پر نیا دور میڈیا کو تصدیق کی کہ گذشتہ کچھ سالوں میں درجنوں تاجروں نے طالبان کو بھتے کی مد میں رقم ادا کی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو شکایات کی تھیں مگر انہوں نے ہمیں جواب دیا کہ کچھ لوگ ہیں جو شرارت کر کے لوگوں کو تنگ کر رہے ہیں اور اس کا عسکریت پسندوں سے کوئی تعلق نہیں مگر شرارت کرنے والوں کو بھی تاحال منظر عام پر نہیں لایا گیا اور نہ ہی کوئی گرفتاری عمل میں لائی گئی۔ وہ کہتے ہیں ہمارا شک درست تھا کہ یہ لوگ سوات وادی میں موجود ہیں لیکن ریاستی اداروں نے اس کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور ہم نے اپنی سکیورٹی کی ذمہ داری خود ادا کی۔

واضح رہے کہ گذشتہ روز سوات میں مبینہ طور پر کالعدم تحریک طالبان کے مسلح کارکنوں نے ایک پولیس ڈی ایس پی اور سکیورٹی فورسز کے ایک افسر اور سپاہی کو اغوا کر کے یرغمال بنایا تھا اور جرگے کے ذریعے مذاکرات کے بعد تینوں کو رہا کیا گیا۔ پولیس ڈی ایس پی کو ٹانگ پر گولی ماری گئی تھی جس کے بعد مبینہ طور پر وہ سی ایم ایچ اسپتال راولپنڈی میں زیر علاج ہے۔

معروف صحافی اور جرگہ پروگرام کے میزبان سلیم صافی کہتے ہیں کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ سوات اور خیبر پختونخوا میں ایک بار پھر عسکریت پسندوں نے واپسی کی ہے اور اس کی تصدیق خیبر پختونخوا حکومت نے سرکاری طور پر کی ہے اور بیرسٹر سیف نے بھی۔ وہ کہتے ہیں کہ عسکریت پسندوں کی تعداد کم بتائی جا رہی ہے لیکن وہ وہاں موجود ہیں اور خطرہ موجود ہے اس لئے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان گذشتہ ایک مہینے سے سوات نہیں گئے۔ "سوات سے تعلق رکھنے والے خیبر پختونخوا میں حکمران جماعت کے ایک ممبر صوبائی اسمبلی نے دھمکی آمیز ٹیلی فون کالز کے بعد اپنے خاندان کو سوات سے اسلام آباد منتقل کیا ہے جب کہ دیر میں پی ٹی آئی ایم پی لیاقت پر قاتلانہ حملہ کیا گیا"۔ سلیم صافی کے مطابق ہم جب یہ آواز بلند کرتے تھے کہ تحریک طالبان پاکستان اور افغان طالبان ایک نظریے اور سوچ کی دو تنظیمیں ہیں تو ہم پر دباؤ ڈالا گیا اور دفاعی امور کے دانشور اور دیگر ادارے یہی کہتے تھے کہ ایسا نہیں ہے۔ لیکن آپ نے دیکھ لیا کہ جب طالبان کابل میں برسراقتدار آئے تو ٹی ٹی پی کو شاہی مہمان بنا دیا گیا۔ ریاست کی غلط پالیسی یہی رہی کہ انہوں نے افغان طالبان کے ساتھ سفارتکاری کی بجائے سیدھا ٹی ٹی پی کے ساتھ مذکرات شروع کیے اور قوم کو اعتماد میں لیے بغیر اُن سے وعدے بھی کر کے ان کو پاکستان وآپس انے دیا۔

گذشتہ روز سوات اور دیر میں سینکڑوں کی تعداد میں لوگ طالبان کی مبینہ واپسی کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے احتجاجی دھرنا بھی دیا۔

نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ اور سابق سینیٹر افراسیاب خٹک نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ سیاسی اور سماجی تنظیمیں اور شمالی اور جنوبی وزیرستان کے عوام بار بار اپنے خدشات کا اظہار کر رہے تھے کہ طالبان نے دونوں اضلاع کی جانب واپسی کی ہے مگر کوئی توجہ نہیں دے رہا تھا۔ سوات میں اب واضح ہو گیا ہے کہ یہ لوگ واپس آ چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ایسا ممکن ہی نہیں ہے کہ طالبان نے بغیر کسی معاہدے کے واپسی کی ہو۔ "میری معلومات اور مشاہدے کے مطابق عسکری حکام اور ٹی ٹی پی کے درمیان معاہدہ ہو چکا ہے اور قبائلی مشران اور علما کو کابل بھیجنا ایک رسمی کارروائی تھی تاکہ پہلے سے کیے گئے معاہدے کو عملی جامہ پہنایا جا سکے"۔ وہ کہتے ہیں کہ پس پردہ کوئی معاہدہ طے ہوا جس کا نہ پارلیمان کو علم ہے اور نہ ہی عوام کو، لیکن یہ پاکستان کے امن کے لئے ایک تباہی ہے۔

کچھ دن سے ایسی اطلاعات سامنے آ رہی ہیں کہ ٹی ٹی پی کے سینکڑوں کی تعداد میں مسلح لوگوں نے سوات کا رُخ کیا ہے اور سوات کے پہاڑوں میں موجود ہیں۔ کچھ لوگ یہ سوال بھی سوشل میڈیا پر اُٹھا رہے ہیں کہ سوات کا کوئی بارڈر افغانستان کے ساتھ منسلک نہیں ہے تو پھر سینکڑوں مسلح لوگ کیسے سوات پہنچ گئے؟ سینیٹر افراسیاب خٹک اس نکتے سے اتفاق کرتے ہیں کہ ریاست گارنٹی کے بغیر اتنے لوگ بارڈر کراس کر کے پاکستان نہیں آ سکتے اور یہ کسی ڈیل یا معاہدے کے اثرات ہیں۔

سوات کے ایک سینیئر پولیس افسر نے نیا دور میڈیا کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کچھ ہفتوں پہلے تک سوات پر امن ضلع تھا اور یہاں پر بھتے کی شکایات کے علاوہ امن و امان کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ اس سوال کے جواب میں کہ کیا سوات کی اطراف میں پولیس موجود نہیں، انہوں نے کہا کہ میرے علم میں نہیں کہ یہ لوگ کیسے سوات پہنچ گئے اور نہ چیک پوسٹوں پر ایسی اطلاعات آئی ہیں۔ آپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان واقعات کے بعد سوات کے کچھ علاقے نو گو ایریاز بن چکے ہیں اور ہمارے پولیس کے جوان وہاں جانے سے کتراتے ہیں۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک ہماری نفری کم ہے اور دوسرا ہمارے پاس جدید وسائل کی کمی ہے جس سے ہم مسلح عسکریت پسندوں کا مقابلہ کر سکیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا سوات میں طالبان نے چیک پوسٹس قائم کی ہیں تو انہوں نے کہا کہ ایسی شکایات آئی تھیں مگر وہ عارضی طور پر لگائی گئی تھیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے متحرک ہونے کے بعد وہ وہاں سے نامعلوم مقام کی طرف منتقل ہو گئے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس خفیہ اطلاعات یہی ہیں کہ جتنے لوگوں نے سوات کی جانب پیش قدمی کی ہے وہ سارے مقامی ہیں اور اپنے گھروں میں روپوش ہیں۔ پشتون کلچر کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے ہمارے لئے مشکلات ہیں۔

سوات امن کمیٹی کے ایک سابق اہلکار نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ طالبان سوات سے کہیں نہیں گئے تھے۔ ان کے مراکز ختم ہوئے تھے۔ لیکن وہ کم تعداد میں یہاں موجود تھے اور وقفے وقفے سے امن کمیٹی کے سابق رضاکاروں اور سکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کو مارتے رہے لیکن جب سے انتظامات ضلعی انتظامیہ اور پولیس کے حوالے کیے گئے ہیں تو حالات مزید خراب ہو گئے ہیں اور اب ایسا لگتا ہے کہ حالات پولیس کے کنٹرول سے باہر ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں سکیورٹی اداروں کی جانب سے اطلاعات ملی ہے کہ ایک چھوٹے پیمانے پر سوات میں آپریشن شروع کیا جا رہا ہے مگر لوگوں کی نقل مکانی نہیں ہوگی اور نہ ہی 2007 جیسے حالات بنیں گے۔

سوات میں 2007 میں جب حالات تیزی سے بگڑ گئے اور امن و امان کی غیر یقینی صورتحال پیدا ہو گئی تھی۔ دس لاکھ کے لگ بھگ لوگوں نے سوات سے خیبر پختونخوا کے دیگر اضلاع کی طرف نقل مکانی کی تھی جس کے بعد سکیورٹی فورسز نے 2007 کے آخر میں آپریشن راہ حق شروع کیا تھا۔ اس کے بعد سکیورٹی فورسز نے دعویٰ کیا تھا کہ سوات طالبان سے محفوظ کر دیا گیا ہے اور اب وہاں حالات نارمل ہیں۔

سوات سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی کا دعویٰ ہے کہ تقریباً 2 ہزار کے لگ بھگ مسلح افراد جن کا تعلق مبینہ طور پر ٹی ٹی پی سے ہے سوات کی طرف آ گئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ناصرف وہ مقامی پاکستانی سمز سے ہمارے ساتھ رابطے میں ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ کہتے ہیں کہ ہماری لیڈرشپ کی طرف سے حکم آیا تھا کہ پاکستان میں آپ جہاں جاؤ محفوظ ہو لیکن آگے وہ کچھ نہیں بتاتے کہ وہ کسی معاہدے کے تحت آئے ہیں یا ویسے ہی۔ وہ کہتے ہیں طالبان کا مؤقف یہی ہے کہ ادھر سے وہ کہیں نہیں جانے والے اور اب یہاں پر ہی قیام پزیر ہو کر اپنا کام جاری رکھیں گے۔

افواج پاکستان، خیبر پختونخوا اور وفاقی حکومت نے ان حالات پر کوئی رد عمل نہیں دیا ہے۔ تاہم، وزیر دفاع خواجہ آصف نے گذشتہ روز قومی اسمبلی میں خطاب کے دوران کہا تھا کہ خیبر پختونخوا میں حالات خراب ہیں اور امن و امان کو خطرات لاحق ہیں۔
مزیدخبریں