لیکن کیا ARY یہ سب کچھ صحافت کے لئے کر رہا تھا؟ جی نہیں۔ یہ صرف عمران خان کے اس احسان کا بدلہ اتار رہا تھا جو اس کے مالک کو عمران خان نے 23 مارچ کو صدارتی تمغے کی صورت میں دیا تھا جو کہ پاکستان کا سب سے بڑا سولین ایوارڈ ہے۔ یہی ایوارڈ PTI حکومت کے دوران ارشد شریف کو بھی دیا گیا۔ سلمان اقبال کو FBR سے ٹیکس میں چھوٹ بھی لے کر دی گئی۔ سلمان اقبال یہ اس لئے کر رہا تھا کیونکہ یہ وہ واحد میڈیا مالک تھا جس نے عمران خان کے ساتھ روس اور اقوامِ متحدہ کے دورے کیے۔ صرف PCB کی جانب سے دیے گئے میچ دکھانے کے حقوق کی جو کہانی مریم اورنگزیب نے بیان کی ہے، وہی کافی ہے سلمان اقبال کی عمران خان سے محبت سمجھانے کے لئے۔ PTI دورِ حکومت میں ARY کے اثاثوں میں کتنا اضافہ ہوا، یہ بھی ایک زبردست تحقیق ہوگی۔
ARY سے منسلک دیگر افراد پر عمران خان نے کیا کیا نوازشات کیں، ان کی حقیقت بھی جلد سامنے آئے گی۔ اے آر وائے عدالتوں، اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی کو الزامات لگا کر دباؤ میں لایا اور PTI کے بیانیے کو فروغ دے کر اس کو بھی اپنے ساتھ رکھا۔ اے آر وائے نے دسمبر 2021 میں ارشد شریف کا ایک پروگرام چلایا جس میں اس نے کہا کہ ہر ادارے کا سربراہ یا تو احسانات تلے دبا ہوا ہے، سمجھوتے کر چکا ہے یا پھر کرپٹ ہے۔ پھر پورے سوشل میڈیا پر اس پروگرام کے حصوں کو پھیلایا گیا۔ ارشد شریف نے اس کے بعد دو گانے چلائے جو براہِ راست پاکستانی عدلیہ کو ٹارگٹ کر رہے تھے اور اس نے کہا کہ یہ عدلیہ ہی پاکستان کے اندر ہونے والی ہر ناانصافی اور غلط چیزوں کی ذمہ دار ہے۔ ارشد شریف اور ARY نے ایک سیاسی جماعت کے حق میں مہم شروع کر دی اور اس نے اپنے وہ ماضی کے تمام پروگرام بھی نظر انداز کر دیے جو یہ خود PTI اور اس کے چیئرمین کی بیرونی فنڈنگ اور ذلفی بخاری کی دہری شہریت کے حوالے سے کر چکا تھا۔ ارشد شریف نے معید یوسف کے خلاف اپنے پروگرام بھی نہیں دیکھے جن میں یہ عمران خان کے لگائے ہوئے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر کو امریکہ کا ایک اثاثہ قرار دے رہا تھا۔ ان پروگرامز کے لئے پی ٹی آئی نے ارشد شریف کے خلاف ٹرینڈ چلائے اور ان کا نام بگاڑ کر ارشد کتا شریف لکھا۔
اے آر وائے نے 'وہ کون تھا' کے عنوان سے ایک سیگمنٹ بھی چلایا جس میں اداروں کے خلاف براہِ راست الزامات لگائے گئے۔ یہ چینل جو ن لیگ کے خلاف ہوئے تمام اقدامات کا بڑا پرجوش حامی تھا، جب اسٹیبلشمنٹ نے پی ٹی آئی کے خلاف کچھ بھی نہیں کیا، تب بھی اسے سیاسی مداخلت اور سازش کا ذمہ دار ٹھہراتا رہا جب کہ ادارہ بار بار یہ یقین دہانی کراتا رہا کہ یہ غیر سیاسی ہے۔ اے آر وائے نے ایک نیا کام یہ کیا کہ اپنے چینل پر ممکنہ طور پر اگلے آرمی چیف پر پروگرام شروع کر دیے جو کہ پاکستان میں کبھی نہیں کیے گئے۔ اس سے منسلک صحافی نے اسٹینلشمنٹ کو سوشل میڈیا پر گالیاں دیں۔ انہوں نے PTI کے ٹرینڈز میں حصہ لینے سے بھی گریز نہ کیا بلکہ ان میں پارٹی کے کارکن بن کر حصہ لیتے رہے۔ جب عدلیہ، دفترِ خارجہ، انٹیلیجنس اداروں سمیت تمام قومی ادارے یہ واضح کر چکے تھے کہ انہیں کسی سازش کے کوئی شواہد نہیں ملے، اے آر وائے PTI کی 'نکلو پاکستان کی خاطر' مہم چلاتا رہا۔ نیوز روم اور اینکرز کو اجازت نہیں تھی کہ وہ PTI کے علاوہ کسی بھی نقطۂ نظر سے اتفاق کریں۔ کسی اینکر نے توازن رکھا تو یا تو اسے ایئر ٹائم دیا ہی نہیں گیا، یا دیا بھی گیا تو انتہائی کم۔ اور اگر کوئی PTI سے ہٹ کر لائن لیتا تو اسے ٹرانسمیشن سے نکال دیا جاتا۔
اے آر وائے نے پاکستانی سفیر اسد مجید کے نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے اجلاس میں بیان کے حوالے سے جھوٹی خبر چلائی کہ ان پر دباؤ ڈالا جا رہا تھا، جس کی بعد میں انہوں نے خود تردید کی۔ میڈیا کو دی گئی پریس ریلیز کو بھی پی ٹی آئی کے حق میں موڑ کر دکھانے کی کوشش کی جاتی رہی کہ اداروں نے سازش کو تسلیم کیا تھا۔
شہباز گل کا بیپر کوئی نیا واقعہ نہیں ہے۔ البتہ 15 منٹ کا بیپر ایک نیا ریکارڈ ہے جس میں نہ تو شہباز گل کو روکا گیا، نہ ہی انہیں کسی قسم کی مداخلت کا سامنا کرنا پڑا۔ اے آر وائے نے ان کی لغو باتوں کو روکنے کے لئے تاخیری میکنزم کا بھی استعمال نہیں کیا۔ اگر ہم نومبر 2021 کے بعد سے اے آر وائے کی ٹرانسمیشن دیکھیں تو یہ واضح ہے کہ اس نے اپنا اثر و رسوخ اداروں پر دباؤ ڈالنے کے لئے استعمال کیا۔ اس نے ہمیشہ مخالف میڈیا ہاؤسز پر الزامات لگائے۔ یہ حقیقت بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ یہ چینل پاکستان سے باہر ہر ہتکِ عزت کا مقدمہ ہارا ہے۔ یعنی جب بھی آزاد تحقیقات ہوں، ARY کا یہی انجام ہوگا۔ بدقسمتی سے ریاستی ادارے ARY کو بچاتے آئے ہیں اور اس نے کبھی ملک میں حقیقی احتساب کا مزا نہیں چکھا۔
جو کچھ بھی آج ARY کے ساتھ ہو رہا ہے، اس کے ذمہ دار صرف اس کے مالکان اور 2، 3 افراد ہیں جنہوں نے اپنی مراعات کی خاطر اپنے سینکڑوں ساتھیوں کی ملازمتوں کو داؤ پر لگا دیا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ اس تناظر میں تحقیقات کی جائیں اور جو لوگ اظہار کی آزادی اور صحافت کے نعروں کے پیچھے چھپ رہے ہیں، ان کا احتساب کیا جائے۔ وقت آ گیا ہے کہ صحافی اور ان کی تنظیمیں اپنے درمیان ان کالی بھیڑوں کو پہچانیں جو صحافت کے نام پر ایک دھبہ بن چکی ہیں۔