اسی طرح صدیوں سے قائم قبرستان تقریباً میں آج تک کسی بھی شخص نے ہندو یا مسیحی برادری کے دفنانے کیخلاف آواز نہیں اٹھائی۔
اہل علاقہ کا کہنا ہے کہ بعض اوقات خصوصاً عاشورہ میں اہلِ تشیع کے علاوہ سنی اور ہندو برادری بھی باقاعدہ طور پر قبرستان میں مزاروں پر دیئے جلانے کے علاوہ پھول نچھاور کرتے ہیں اور پانی چھڑکتے ہیں۔ مقامی ضلعی انتظامیہ کے مطابق یہ قبرستان تقریباً ڈھائی سو سال قبل کی گئی ہے اور یہاں پر بزرگ رہنما سید منور کو بھی دفن کیا گیا ہے جس کی وجہ سے اس کا نام چاہ سید منور کا نام دیا گیا۔
مذہبی ہم آہنگی کے اس انوکھے قبرستان میں ہندو برادری اپنی قبروں کو پیلا رنگ دینے کے علاوہ ان پر مخصوص قسم کے دئیے بھی جلاتے ہیں اور ان کی قبروں کے اوپر مذہبی اوم کا نشان بھی ہوتا ہے۔ مسیحی برادری کی قبروں پر صلیب کا نشان بھی لگایا جاتا ہے۔
پورے قبرستان میں کسی بھی مذہب، علاقے کیلئے کوئی بھی جگہ مخصوص نہیں۔ مسلمانوں کی قبروں کے اردگرد ہندو اور مسیحی برادری کی قبروں کو دیکھا جاسکتا ہے۔
ہندو برادری کے پنڈت آر سی شرما کے مطابق پہلے یہاں پر انکی کی مذہبی عبادت گاہ اور شمشان گھاٹ بھی ہوا کرتا تھا تاہم آزادی کے بعد وہ ختم ہوا۔ ہندو برادری شمشان گھاٹ نہ ہونے کے باعث اپنے مُردوں کو نہیں جلا سکتی اسی لئے وہ اس قبرستان میں انہیں دفن کرتے ہیں۔
پادری قیس جاوید کے مطابق ڈیرہ اسماعیل خان میں مسیحی برادری کیلئے دو قبرستان قائم کئے گئے۔ گورا قبرستان دور پڑتا ہے اس لئے یہاں کے مسیحی اپنے مُردوں کو اسی قبرستان میں دفن کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آج تک کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے شخص یا فرقے نے دوسرے مذہب کی قبر کی بے حرمتی نہیں کی۔
مختلف مواقع پر تو مسلمانوں نے مسیحیوں کہ قبروں کی مرمت کی ہے اور سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ڈیرہ اسماعیل خان میں تقریباً 10 ہزار کے قریب مسیحی اور 1500 کے قریب ہندو برادری صدیوں سے آباد ہے۔
موجودہ صوبائی حکومت نے محکمہ اوقاف کے تحت چاہ سید منور قبرستان کے اردگرد حفاظتی دیوار بھی قائم کر رکھی ہے اور ایک خصوصی جنازہ گاہ بھی بنائی گئی ہے۔
واضح کہ تحریک طالبان پاکستان کے مخالف دھڑے کے کمانڈر قاری زین اللہ قتل کئے جانے کے بعد اسی قبرستان میں دفنایا گیا۔