میں شہر کی مشہور "پاور الیکٹرانکس" میں کام کرتا تھا اور وہ وہاں موبائل خریدنے آئی تھی۔ خوبصورت وہ بلا کی تھی۔ مجھے آج بھی یاد ہے جب داخلی دروازے سے وہ اندر آئی تھی تو آگ پکڑتے سرخ بالوں سے برف جھاڑ رہی تھی۔ میرا دل دو دھڑکنیں مِس کر گیا تھا۔ میں نے سروس دی تھی اسے اور ایسی دی کہ آج وہ میری بانہوں میں برف کی طرح پگھل رہی تھی۔
کھڑکی پہ برف گرتی تھی اور مٹ جاتی تھی، شیشے اندر سے دھندلا چکے تھے۔ آتش دان میں لکڑیاں جل رہی تھیں اور 'سارا شہر' پسینے میں ڈوبا ہوا تھا۔
میں شہر فتح کر چکا تھا اور کسی فاتح کی طرح ٹانگیں پھیلائے صوفے پہ بیٹھا ہانپ رہا تھا جب وہ مارلبرو گولڈ کے کش لگاتی ناروے کے حسین مناظر جیسے جسم کو کپڑوں میں چھپانے کی کوشش کر رہی تھی۔
میں اپنی تمام تر بری عادتوں اور حرکتوں کا اعتراف کر چکا تھا اور وہ اپنی زندگی کے حسین اقدامات مجھے بتا چکی تھی۔ ہم ایک دوسرے کو قبول کر چکے تھے۔
اب مرحلہ تھا اماں سے ملوانے کا۔ سو ایک دن اماں کو شہر بانو بارے بتانے کے بعد انہیں ملوانے کی غرض سے سویڈن کے بارڈر پہ شاپنگ ٹور کا پروگرام بنایا اور ہم تینوں نکل لیے۔
بیباک تو وہ تھی ہی، اعتماد کا تڑکا اس پہ الگ تھا۔ میرے کہنے پہ اس نے شلوار قمیص پہن تو لی تھی مگر گلا کافی کھلا ہونے کے باعث اماں اس کی طرف دیکھ کم ہی رہی تھیں۔ ناک کے بیچوں بیچ نتھلی ڈالے وہ اپنے اسی کھلے ڈلے انداز میں اماں سے باتیں کرتی رہی۔ خیر شاپنگ ٹور سے واپسی پہ اسے گھر اتارا اور میں اماں کو لے کے گھر آ گیا۔ گھر آنے کے بعد اماں مکمل خاموش تھیں اور مجھے شہربانو کے میسجز پہ میسجز آ رہے تھے کہ کیسی لگی میں اماں کو۔
رات کو اماں کو گھیر ہی لیا۔
"اماں بتاؤ پھر کیسی تھی شہر؟"
اماں نے تسبیح میز پہ رکھی اور پہلے مجھے دو منٹ دیکھتی رہی اور پھر بولی، "پُتر، کُڑی تے مینوں دو نمبر لگدی اے"
"تے اماں تیرا پُتر کیہڑا اِک نمبر اے"
میرے یہ کہنے پہ اماں نِما سا مسکرائی اور بولی "پتر فیر ٹھیک اے، مینوں ایہہ رشتہ منظور اے۔"