ریاست یعنی حکومتیں ایسا کیوں کرتی ہیں؟
وہ عموماً ایسا اس لیے کرتی ہیں کہ سزا بڑھانا انتہائی آسان کام ہے۔ آپ کو زیادہ سے زیادہ اسمبلی سے ایک بل ہی تو منظور کرانا ہوتا ہے۔ اُوپر سے ایسے اقدام سے غم و غصہ میں ڈوبی عوام بھی عارضی طور ہر خوش ہو جاتی ہے کہ اب دیکھتے ہیں ان مجرموں کے ساتھ! اس دوران کچھ عرصہ گزرتا ہے اور جیسے ہی ایسا کوئی اور واقعہ پیش آتا ہے ایک بار پھر سے سزا بڑھائی جاتی ہے۔ اب سے چند دن قبل حکومتِ وقت نے بھی قومی اسمبلی میں ایسا ایک ریزولوشن پیش کیا جس میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے مرتکب مجرموں کو سرعام پھانسی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ تب سے یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ آخر سزا بڑھانے سے ایسے جرائم روکے جا سکتے ہیں یا نہیں؟
آپ کو یاد ہو گا کہ کیسے پوری ریاست زينب کے قاتل کو ڈھونڈنے میں لگ گئی۔ اس کا قاتل مل گیا، اس کو پھانسی بھی ہو گئی لیکن کیا ان واقعات میں کمی واقع ہوئی؟ نہیں۔ اور کمی واقع ہو گی بھی نہیں۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے ہمیں تھوڑا سا گہرائی میں جانا ہو گا۔
کوئی بھی انسان قدرتی طور پر مجرم نہیں ہوتا۔ انسان تو بہت بے ضرر پیدا ہوتا ہے۔ اس کے پیدا ہونے کے بعد اس کو معاشرہ ایک نام دیتا ہے، ایک ماحول دیتا ہے، تعلیم دیتا ہے۔ جنسی زیادتی کا ارتکاب کرنے والا مجرم پیدائشی گناہ گار نہیں ہوتا۔ اس کے ماحول میں گندگی آہستہ آہستہ اس کی ذہنیت کو گندا کرتی ہے۔ انسان کا ذہن وہ سوچ ہی نہیں سکتا جو اس نے دیکھا نہ ہو۔ مثال کے طور پہ ایک آدمی ایک ایسی جگہ پیدا ہو جائے جہاں دور دور تک سگریٹ نا ہو اور نا ہی اس نے کبھی کسی کو پیتے دیکھا ہو تو اس آدمی کا دماغ خودبخود کبھی بھی تمباکو نوشی کی طرف راغب نہیں ہو گا۔ جو لوگ اس گناہ کی طرف راغب ہوتے ہیں پہلے تو وہ کہیں نا کہیں اس جرم کو ہوتے ہوئے دیکھ لیتے ہیں یا بدقسمتی سے کسی ایسے شخص کا نشانہ بن جاتے ہیں جو کہ پہلے سے اس راہ پہ گامزن ہے۔ اس وجہ سے عین ممکن ہے کہ جو لوگ اس جرم کا ارتکاب کرتے ہیں ان کو کہیں نا کہیں ایسا ماحول ملتا ہے جہاں ان کا ذہن نا جانتے بوجتے اس گندگی سے بھرنے لگتا ہے اور ایک دن وہ خود بھی اسی طرح کے درندے بن جاتے ہیں۔ اس مقام پہ والدین کا کردار بہت اہم ہے۔ والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس معاملے سے جڑے ہر زاویے کو دیکھیں اور اپنے بچوں کو ہر ایسے ماحول سے دور رکھیں جہاں ایسی غلیظ ذہنیت پنپ رہی ہو۔
یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ ان مجرموں میں سے کئی مجرم ایسے ہیں جن کی عمر 18 سال سے کم ہوتی ہے۔ یعنی یہ نوجوان اپنے سے چھوٹی عمر کے بچوں کے ساتھ زیادتی کرتے پائے گئے ہیں۔ عدالتوں میں آئے روز ایسے مقدمات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ چاہے آپ 50 دن تک بھی مجرم کی لاش چوک پہ لٹکا دیں تب بھی اس جرم اور مزید کئی جرائم میں کمی نہیں آئے گی کیونکہ کوئی بھی مجرم جرم کا ارتکاب کرتے ہوئے یہ نہیں سوچتا کہ اس جرم میں سزا کتنی ہے۔ پکڑے جانے کا خوف تو دور دور تک نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ جرم کرنے کا تعلق انسانی ذہن کے ساتھ ہے۔ جب ذہن ایک دفعہ کسی ارادے پہ پختہ ہو جائے تو جرم کا ارتکاب کرتے ہوئے مجرم بلکل بھی نہیں ہچکچاتا۔ اگر آپ کو میری بات بہت عجیب لگ رہی ہے تو خودکش بمبار کی مثال لے لیجیے۔ جب بھی کسی خودکش کو رنگے ہاتھوں پکڑا جاتا ہے تو وہ صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے دھڑلے سے کہتے ہیں کہ اگر ہم چھوٹ گئے تو پھر بھی دھماکہ کریں گے۔ تو کیا ایسے شخص کو سولی پہ لٹکانے سے مسئلہ حل ہو جائے گا؟ اگر سزا بڑھانے سے یہ جرم نہیں روکا جا سکتا تو پھر اسے کیسے روکا جائے؟
1۔ غربت کا خاتمہ
سب سے پہلی چیز یہ کہ غربت کے مکمل خاتمے کے لیے لائحہ عمل بنایا جائے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ جرم کا بنیادی تعلق ذہن کے ساتھ ہوتا ہے۔ غربت اور مفلسی وہ پہلے عناصر ہیں جو انسان کے ذہن کو منفی رویوں کی طرف راغب کرتے ہیں۔ غربت ایک لعنت ہے جو انسان کو گناہ کی طرف راغب کرنے کا پہلا عنصر ہوتا ہے۔ کون خوشی خوشی چوری کی آمدنی کی طرف راغب ہوتا ہے؟
آپ شاید جواباً کہیں کہ یہ جرم تو امیر لوگ بھی کرتے ہیں۔ یقیناً کرتے ہیں لیکن زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے جن کا ذہن شروع ہی سے ماحول کی وجہ سے یا بری صحبت کی وجہ سے اس گناہ کی طرف راغب ہوتا ہے۔ کئی امیر گھروں میں صحبت تو اچھی ہوتی ہے لیکن والدین غفلت کے مارے اپنے بچے پہ دھیان نہیں دیتے یا ان کی ساری کی ساری توجہ سکول سے گھر آنے والے اس کاغذ پہ ہوتی ہے جس کو ہم رزلٹ کہتے ہیں۔
2۔ والدین کا کردار
دوسرا اہم قدم یہ ہے کہ والدین اپنے بچوں کو شروع سے موزوں طریقوں سے اس ضمن میں تعلیم دینا شروع کریں اور ان کو کبھی بھی نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیں۔ زینب کے والدین یہیں مار کھا گئے کہ وہ دونوں عمرہ پہ چلے گئے اور اپنی معصوم بچی کو اس درندہ صفت معاشرے میں اکیلا چھوڑ گئے۔ یقیناً انہوں نے زینب کو اپنے رشتہ داروں کے یہاں چھوڑا لیکن کیا گناہ اور جرم کے ارتکاب کے وقت رشتہ دار رشتہ داری کا لحاظ کرتے ہیں؟ اس جرم کے سلسلے میں والدین کو حقیقت میں آنکھیں کھولنا ہوں گی۔ کب کون کس ذہنیت کا مالک آپ کے بچے کی تاک میں ہو کسے پتا۔ کئی والدین اس سلسلے میں غلط اندازے بھی لگا بیٹھتے ہیں۔ بظاہر جو شریف نظر آتے ہیں ان کے ساتھ اپنے بچوں کو بے جھجک چھوڑ دیتے ہیں حالانکہ ان کے اس شریف چہرے کے پیچھے شیطان چھپا ہوتا ہے اور جو بظاہر ان کو شریف نہیں لگتے ان سے اپنے بچوں کو دور رکھتے ہیں۔ والدین کو بظاہر سے نکل کر اس اہم مسئلے کو بھرپور انداز میں سمجھنا ہو گا۔
3۔ آگاہی
تیسرا قدم یہ ہے کہ جنسیات کے موضوع سے موں نا موڑا جائے۔ ہر بچہ ایک دن بڑا ہو جاتا ہے۔ ہمارے یہاں جنس کے موضوع پہ بات کرنے کو بےحیائی سے تشبيح دے دی جاتی ہے۔ اگر ہم اس موضوع کو صحیح طریقے سے معاشرے میں سمجھ بوجھ کے ساتھ پیش کریں تو ہم بہت سارے مستقبل کے مجرموں کو راہ راست پر لا سکتے ہیں۔ ہمارے معاشرے کے اندر کئی معاشرے ہیں۔ ان سب معاشروں کو اکٹھا کرنا لازم ہے۔ امیر، غریب، سکول اور مدرسہ، وغیرہ وغیرہ سب کو اکٹھا کرنا ہو گا۔ کیونکہ یہ مسئلہ سب کا مسئلہ ہے۔ محض کسی مذہبی رہنما کے یہ کہنے سے کہ یہ بہت بڑا گناہ ہے مجرم نہیں ڈرتا۔ اگر ایسا ہوتا تو جرم ہوتے ہی کیوں؟
4۔ مؤثر سزا
برطانیہ میں ہر مجرم کو اس کے پس منظر اور قانون کو یکجا کر کے سزا دی جاتی ہے۔ ایسا اسی لیے کیا جاتا ہے کہ انسانوں اور درندوں میں فرق کیا جا سکے۔ بجائے اس کے کہ ایسے مجرموں کو سولی پہ لٹکانے کی بات کر کے لوگوں کے جذبات کے ساتھ کھیلا جائے اس ضمن میں بھرپور تحقیق کے ساتھ ہوم ورک کی ضرورت ہے۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں نے اس تحریر میں بظاہر کوئی انقلابی بات نہیں کی جیسا کہ ایسے لوگوں کو سولی پہ چڑھا دو، ایسے مجرموں کو زندہ درگور کر دو یا پھر ان کی لاش کو پورے شہر میں گھسیٹو وغیرہ وغیرہ۔ کیونکہ ایسا کرنے سے کچھ بھی نا ہو گا۔ آج سے پہلے صدیوں میں سزائیں بہت زیادہ گھناؤنی ہوا کرتی تھیں چاہے وہ اسلامی تاریخ ہو یا مغربی۔ کیا ان سزاووں نے برائی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا؟
اگر آپ غور فرمائیں تو اس سے بڑا انقلاب کچھ نہیں ہو گا کہ ہمارے ذہن بدل جائیں، صاف ہو جائیں اور ہمارے معاشرے سے جنسی زیادتی جیسے ناپاک جرائم کا مکمل خاتمہ ہو جائے۔ یہ سب کرنے کے لیے ان سب اقدام پہ کام ناگزیر ہے۔ یہ مشکل کام ہے۔ تقریر کرنے اور قانون بنانے سے کہیں زیادہ مشکل۔
جرم کے ارتکاب کے عناصر ختم کیے بغیر دنیا کی کوئی سزا جرائم کا خاتمہ نہیں کر سکتی۔