معاشی حوالے سے حکومت کی اس کمزور کارکردگی نے عمران کی شخصیت اور حکومت کی صلاحیتوں کے حوالے سے شکوک اور شبہات کو جنم دیا ہے۔ جو حکومت کے لئے مشکلات اور اس کی کارکردگی کو متاثر کرنے کے عمل کی شروعات کرچکاہے۔عمران خان نے انتخاب سے پہلے اور انتخاب کی مہم کے دوران غربت ، کمزور معشیت،منہگائی بیروزگاری کو بنیاد بنا کر مخالف سیاست دانوں خاص طور پر سابق وزیراعظم میاں انواز شریف اور پیپلزپارٹی کی قیادت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ اور عمران خان کی ان باتوں پر یقین اور بھروسہ کر کے عوام نے ان کی پارٹی کو ووٹ دیکر کامیاب کیا۔ جب اس وقت وہ اور ان کی حکومت انہی مسائل سے شکست کھاتے ہوئے نظر آرہے ہیں ۔ عمران خان آنے والےمالی سال میں اگر ملکی عوام کےمعاشی مسائل اور حالات کو اگربہتر نہیں کر سکے تو باقی عرصہ ان کے لئے حکومت کرنا انتہائی مشکل ہو جائے گا۔ لیکن یہاں پر سوال یہ بھی ہے کہ یہ کس طرح ممکن ہوگا۔ کیوں کہ عوام کے مسائل اور معاشی حالت میں بہتری لانے کے لئےسرمایہ درکار ہے۔
جس کے لئے حکومت کے پاس آئی ایم ،ایف کے سوا کوئی اور آپشن نہیں ہے ۔ لیکن حکومت کے لئے یہاں مسئلہ یہ ہے کہ آئی ایم ،ایف کی شرائط سخت ہیں جوحکومت پر زور دے رہی ہے کے بجلی، گیس، ایندھن، اور عام استعمال کی چیزوں پر مزید ٹیکس لگایا جائے۔اگر موجود حکومت ان شرائط کو تسلیم کرتے ہوئے مزید ٹیکس لگایا جائےاور پی ٹی آ کی حکومت ان شرائظ کو تسلیم کرتے ہوئے آئی ایم ، ایف سے مزید قرض لیتی ہے تو ملک میں مزید مہنگائی ہونے کا امکان ہے جس سے عوام میں بیچینی اور اس کے مسائل میں اضافہ ہو گا جس سے اس کے مخالفین فائدہ اٹھائیں گے اور عوام کے اندر موجودہ حکومت کی مقبولیت کو دھچکا لگے گا۔ حکومت جو پہلے ہی عوام سے کیئے گئے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ان اقدام سے اس عوام کے اندر مزید اپنی مقبولیت کھودیگی ،جس سے اپوزیشن پارٹیوں کے اس دعویٰ کو مزید تقویت ملے گے کہ پی، ٹی آئی اور اس کے رہنماوں کے پاس حکومت چلانے کی اہلیت نہیں ہےاور یہ حکومت ملک کو مزید مسائل کی طرف لے جارہی ہے۔جس سے ناصرف اپوزیشن کو فائدہ ہوگا بلکہ ان حالات سے وہ قوتیں بھی فائدہ اٹھائے گی جو ہر منتخب وزیراعظم اور اس کی حکومت کے لئے اس وقت سنگین مسائل پیداکرتی ہیں۔ جب وہ حکومت عوام میں غیر مقبول ہونا شورع ہوجاتی ہے جس طرح ذوالفقار علی بھٹو،جونیجو، بینظیربھٹو، میاں نوازشریف کی حکومتیں جو وقت سے پہلے فارغ کردی گئیں، حکومتوں سے فارغ ہونے کے بعد ان تمام منتخب وزیراعظموں کو زندگی کے مشکل ترین دور سے بھی گذرنا پڑا۔
وزیراعظم عمران خان اس وقت عوام کے اندر اپنی مقبولیت کھو رہے ہیں۔ان کے دور حکومت میں ملک کی عوام ملکی تاریخ کی بدتریں مہنگائی کو برداشت کررہی ہے۔ لیکن اس کے باوجود عوام صبر سے کا م لے رہے ہیں۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کے ملک کے عوام عمران خان اور ان کی حکومت سے پوری طرح مایوس نہیں ہوئے ہیں ۔ان حالات کے باوجودوہ عمران خان کو کام کرنے کا مواقع دے رہے ہیں ۔ لیکن عوامی ہمدردی کا یہ دور صرف اس صورت میں قائم رہے سکتا ہے کے موجود خکومت عوام کو اس کی زوزمرہ زندگی کی ضروریات تک آسان رسائی دینے کے لئے کسی معاشی پروگرام کا بندوبست کرے۔ لیکن ملک کے عام آدمی کو معاشی سہولت دینے کے لئے حکومت کو سرمایہ درکار ہے جو ہمارے ملک کے روایتی ذرائع یعنی بیرونی سرمایہ کے حصول سے ممکن نظر نہیں آرہا۔ اس خطہ اور ہمارے ملک کےاندرونی حالات کے پیش نظر کوئی بھی بیرونی ملک یا مغربی سرمایہ کار سرمایہ لگانے کے لئے تیار نہیں ہے۔
بھارت کے ساتھ ہمارے تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں جس میں جنگ کے خطرے کا امکان موجود ہے ۔ ملک میں دھشتگردی ،لاقانونیت،بد عنوانی اور کرپشن کی وجہ سے کوئی بھی بیرونی سرمایہ کار سرمایہ لگانے کا رسک لینے کو تیار نہیں ہے۔ لیکن حکومت کے پاس ایک ایسا ذریعہ موجود ہے جس پر اگر موجود حکومت اور خاص طور پر وزیراعظم عمران خان ایمانداری ملکی اور عوامی مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے پوری سنجیدگی ،کشادہ دلی، ذاتی اور سیاسی مفاد کودور رکھ کام کیا جائے تو ملک ناصرف اس بدترین معاشی بحران سے نکل سکتا بلکہ وزیراعظم عمران خان عوام سے کئے گئے اپنے بہت سے وعدہ کو پور کر سکتہے ہیں جس سے ان کو مزید پانچ سال حکومت کرنے کا مواقع مل سکتا ہے وہ ذریعہ ہے اس ملک کے لوگوں کا بیرونی ممالک میں موجود اربوں ڈالر کا سرمایہ جویورپ، آمریکا ، دبئی ، اور دوسرے غیرممالک اور بنکوں میں پڑا سڑ رہاہے۔ جواس ملک کے سیاست دانوں ،سرمائیداروں، اعلیٰ اداروں کے سابق افسران اور سربراہان کا ہے۔ بقول وزیراعظم عمران خان کے آصف علی زرداری اور میاں نوازشریف کے اربوں ڈالر کا سرمایہ بیرون ممالک میں موجود ہے۔اور خود عمران خان صاحب کی یہ شدید خواہش ہے کے اس سرمایہ کے ملک میں واپس لایا جائے۔لیکن فرق یہ ہے موجود وزیراعظم جس طریقے سے وہ سرمایہ ملک میں لانا چاہتے ہیں اس طرح بیرونی ممالک موجود یہ سرمایہ کبھی بھی اس ملک میں نہیں آسکتا کیوں جن لوگوں کا سرمایہ باہر موجود ہے وہ اس ملک کے سسٹم سے اچھی طرح واقف ہیں اور اس سسٹم کے ذریعے ہی انہوں یہ سرمایہ کمایا اور باہر محفوظ کرنے میں کامیاب ہوئے۔ سابق صدرآصف علی زداری اورسابق وزیراعظم میاں نوازشریف ملکی سیاست اور اس کے طورطریقوں کے پرانے کھلاڑی ہیں۔ حکومت ان پر قائم مقدمات کا سہارا لیکر ان کو جیل میں تو ڈال سکتی ہے لیکن ان سے ریادہ کچھ کرنے سے قاصر ہے ۔
حکومت اور اس کے لیے ہمدردی رکھنے والے کو اچھی طرح سے معلوم ہے دونوں سابق سربراہان ملکی سیاست میں وہ ہی مقام رکھتے ہیں جو جنگل میں ہاتھی کا ہوتا ہے جب تک زندہ ہے تو اس کی قیمت لاکھ اور جب مرجائے تو اس کی قیمت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ میاں نوازشریف اورآصف علی زداری عمر کے اس حصہ میں ہیں جس میں انسان خود کرنے کے بجائے اپنے بچوں کو کچھ کرتے دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔ ان کی بھی یہ ہی خواہش کے وہ اپنے بچوں کے سیاسی مستقبل کو محفوظ بنائیں۔ اس صورت حال میں وہ زورزبردستی،سزاکے خوف یا دھمکانے سے اپنا سرمایہ اس ملک میں کبھی بھی نہیں لائیں گے ۔بلکہ وہ عزت ،مفاہمت ، بات چیت ،مکمل طور پر ان کے سرمایہ کو تحفطات دینے انوسیٹمینت کی سہولت کی یقین دہانے کی شرائط پر ان کو اپنا سرمایہ ملک میں لانے پرآمادہ کیا جاسکتا ہے۔ اس پران کو کے آمادہ ہونے کی معقول وجوہات موجود ہیں۔
کیوں کہ ان کو اور ان کے بچوں کو آخر سیاست تو اسی ملک میں کرنی ہے۔ میاں نواز شریف ، آصف علی زداری ،دوسرے سیاست دانوں اعلیٰ داروں کے افسران اور سربراہان ، اور تاجر جب اپنا سرمایہ اس ملک میں لگانا شروع کریں گے تو اس ملک کا ہر شہری جس کا سرمایہ ملک سے باہر موجود ہے وہ اپنا سرمایہ اپنے ملک میں لگانا شروع کریگا جس سے ناصرف اس ملک کے سرمایہ کار کا اعتماد بڑہے گا بلکہ بیرونی سرمایہ کار بھی اس ملک میں اپنے سرمایہ کو محفوظہ سمجھے گا جس سے ناصرف ملک کو بھاری سودی قرض لینے سے نجات ملک جائے گی بلکہ ملک میں سرمایہ کا ری کا نیا دور شروع ہوجائے گا ۔ یہ ملکی مفاد کے لئے ایک غیر معمولی اقدم ہوگا ۔لیکن جب ملک اور قوم کو غیر معمولی مسائل کا سامنے ہوتو ایک محب وطن اپنی شان شوکت ،اپنے غرورسیاسی اور شخصی مفاد کو ایک طرف رکھ کر غیرمعمولی قدم اٹھاتا ہے۔ ویسے بھی یہ تمام لوگ جنہوں نے اس ملک کو لوٹاہے۔اسی ملک کے شہری ہیں اور ان کو اپنی غلطی کو سدھارنے کا موقع دینا چاہئے۔ امریکا کی باربار کی بے وفائی کے باوجود بھی ہم نے ملک میں ڈالر لانے کے لئے اس کو کئی مواقعے فراہم کئے ہین ۔ لیکن یہ لوگ تو بھر بھی اس ملک کے شہری ہیں ان کوموقع دینا چاہئے ۔