اہل خانہ کے مطابق ضیا محی الدین کئی روز سے علیل تھے اور ہسپتال میں زیر علاج تھے۔ وہ آج صبح 6 بجکر 30 منٹ پر حرکت قلب بند ہوجانے سے انتقال کرگئے۔
ضیا محی الدین کی نماز جنازہ بعد نمازِ ظہر کراچی کے علاقے ڈیفنس فیز 4 کی امام بارگاہ یثرب میں ادا کی جائے گی۔
ضیا محی الدین 20 جون 1933 کو فیصل آباد میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد خادم محی الدین تدریس کے شعبے سے منسلک تھے۔ ان کے والدکوپاکستان کی پہلی فلم تیری یاد کےمصنف اور مکالمہ نگار ہونےکا اعزاز حاصل تھا۔
ضیا محی الدین نے 1949 میں گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجویشن کیا جبکہ اس کے بعد آسٹریلیا اور انگلینڈ میں بھی تعلیم حاصل کرتے رہے۔ وہ رائل اکیڈمی آف تھیٹر آرٹس سے بھی وابستہ رہے اور ڈائریکشن کی تربیت بھی حاصل کی جبکہ اداکاری اور صداکاری کی طرف بھی آئے۔
1960 میں ای ایم کے ناول ’پیسیج ٹو انڈیا‘ پر سٹیج ڈرامہ بنا تو اس میں ضیا محی الدین نے ڈاکٹر عزیز کا کردار ادا کیا تھا جبکہ اس کے بعد مشہور فلم ’لارنس آف عریبیہ‘ میں بھی کام کیا۔
اس کے بعد بھی وہ سٹیج سے جڑے رہے۔ ضیامحی الدین براڈوے کی زینت بننے والے جنوبی ایشیا کے پہلے اداکار تھے۔ لاتعداد ڈراموں کے علاوہ چند ہالی وڈ فلموں میں بھی کام کیا۔
1970 میں جب وہ پاکستان آئے تو پاکستان ٹیلی ویژن پر ’ضیا محی الدین شو‘ کے نام سے سٹیج پروگرام شروع کیا جو بہت مقبول ہوا۔ اور 1973 میں پی آئی اے آرٹس اکیڈمی کےڈائریکٹر مقرر کردیےگئے۔
ضیا محی الدین نے پاکستان ٹیلی وژن سے جو پروگرام پیش کیے ان میں پائل، چچا چھکن اور جو جانے وہ جیتے کے نام سر فہرست ہیں ۔
جنرل ضیا الحق کے مارشل لا کے بعد ضیا محی الدین واپس برطانیہ چلے گئے۔ 90 کی دہائی میں مستقل پاکستان واپس آنے کا فیصلہ کیا۔ ضیامحی الدین نے انگریزی اخبار دی نیوزمیں کالم بھی لکھے۔ ضیامحی الدین کی کتاب"A carrot is a carrot" ایک مکمل ادبی شہہ پارہ ہے۔
ضیا محی الدین ادبی فن پاروں کو اپنی خوب صورت آواز میں پیش کرنے کے لیے خصوصی شہرت رکھتے تھے۔انہوں نے پی ٹی وی کے علاوہ کئی نجی چینلز کے پروگراموں میں بھی اہم مضامین اور ناولز کے اقتباسات پڑھ کر سنائے۔ انہیں 2004ء میں کراچی میں نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا۔
ضیامحی الدین کی خدمات کے اعتراف میں 2003 میں انہیں ستارہ امتیاز اور 2012 میں ہلال امتیاز ایوارڈ سمیت متعدد ایوارڈز سے نوازا گیا۔
اردو ادب کے ممتاز و معروف مزاح نگار مشتاق یوسفی نے ضیا محی الدین کے بارے میں کہا تھا کہ رتن ناتھ سرشار، چوہدری محمد علی ردولوی، فیض احمد فیض اور پطرس کی تصانیف کے شہ پارے ضیا محی الدین نے پڑھے ہیں وہ جہاں لکھنے والے کے کمال فن کا نمونہ ہیں وہاں پڑھنے اور پیش کرنے والے کے حسن انتخاب، سخن فہمی، نکتہ سمجھنے اور سمجھانے کی اہلیت، لفظ کا مزاج اور لہجہ اور لہجے کا ٹھاٹ پہچان کی صلاحیت کا صحیح معنوں میں منہ بولتا ثبوت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ضیا محی الدین واحد ادبی شخصیت ہیں جن کے پڑھنے اور بولنے کے ڈھنگ کو عالمی شہرت نصیب ہوئی۔