اٹارنی جنرل شہزاد عطا الہیٰ نے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کو لکھے گئے خط میں کہا کہ نیب ترمیمی کیس کے دوران چیف جسٹس نے نوازشریف کے حوالے سے کوئی ریمارکس نہیں دیے۔ بعض ارکان پارلیمنٹ نے چیف جسٹس کے ریمارکس پر تبصرے کیے۔ چیف جسٹس کے ریمارکس کو سوشل میڈیا پر حقائق سے ہٹ کر رپورٹ کیا گیا۔
اٹارنی جنرل نے اپنے خط میں مزید کہا ہے کہ میں ذاتی طور پر عدالت میں موجود تھا۔ چیف جسٹس نے کہا تھا کہ ایک ایماندار وزیراعظم کو ہٹایا گیا۔ یہ نہیں کہا تھا کہ ملک میں ایک ہی ایماندار وزیراعظم تھا، چیف جسٹس نے 1988 میں قومی اسمبلی کی بحالی کا حکم نہ دینے کا ذکر کیا تھا۔
انہوں نے وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ خط اس توقع کے ساتھ آپ کو لکھا جارہا ہے کہ آپ اس حوالے سے ریکارڈ درست کرنے کے لیے بطور وزیرقانون اپنے ساتھی اراکین پارلیمنٹ کے سامنے حقائق پیش کریں گے۔
واضح رہے کہ 9 فروری کو نیب ترامیم کیس کی سماعت کے دوران جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا تھا کہ موجودہ پارلیمنٹ کو دانستہ طور پر نامکمل رکھا گیا ہے۔ موجودہ پارلیمنٹ سے ہونے والی قانون سازی بھی متنازع ہورہی ہے۔
جس کے بعد 10 فروری کو ہونے والے پارلیمنٹ اجلاس منعقد ہوا جس میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے پارلیمنٹ سے متعلق ریمارکس پر عدلیہ کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔