لاہور ہائیکورٹ: مشرف سنگین غداری کیس قانون کے مطابق نہیں بنا، خصوصی عدالت بھی غیرآئینی قرار

11:00 AM, 13 Jan, 2020

نیا دور
لاہور ہائیکورٹ  نے سابق صدر پرویز مشرف کو سزائے موت کا فیصلہ سنانے والی خصوصی عدالت کی تشکیل کو غیرآئینی قرار دے دیا۔

لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس مظاہر اکبر نقوی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف فیصلہ سنانے والی خصوصی عدالت کی تشکیل کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔

پرویز مشرف کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے لاہور ہائیکورٹ نے خصوصی عدالت کی تشکیل کو غیر آئینی قرار دیا اور کہا کہ سابق صدر کے خلاف سنگین غداری کیس بھی قانون کے مطابق نہیں بنایا گیا۔

سماعت کے آغاز پر وفاقی حکومت کی طرف سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل (اے اے جی) اشتیاق اے خان پیش ہوئے اور وفاقی حکومت کی جانب سے خصوصی عدالت کی تشکیل سے متعلق سمری اور ریکارڈ پیش کیا۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ پرویز مشرف کے خلاف کیس بنانے کا معاملہ کبھی کابینہ ایجنڈے کے طور پر پیش نہیں ہوا۔ جس پر جسٹس مسعود جہانگیر نے استفسار کیا کہ کابینہ کا اجلاس کس تاریخ کو ہوا تھا؟ اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ یہ اجلاس 24 جون 2013 کو ہوا تھا۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ خصوصی عدالت کی تشکیل کے لیے ججز کی تقرری کے معاملے پر دوبارہ کابینہ کا اجلاس ہوا تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ سچ ہے کہ پرویز مشرف کے خلاف کیس سننے والی خصوصی عدالت کی تشکیل کابینہ کی منظوری کے بغیر ہوئی۔

عدالت نے استفسار کیا کہ کیا خصوصی عدالت کی تشکیل کا معاملہ کابینہ کے اجلاسوں میں زیرِغور آیا تھا؟ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایسا نہیں ہوا۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ (وفاقی حکومت) کے ریکارڈ کے مطابق عدالت کی تشکیل اور شکایت درج کرنے کا نہ کوئی ایجنڈا ہے اور نہ ہی کوئی نوٹیفکیشن موجود ہے۔

جسٹس مسعود جہانگیر نے ریمارکس دیے کہ یعنی سب کچھ 2 دن میں ہوا۔ اس پر جسٹس مظاہر علی نقوی نے کہا کہ یہ تو لگتا ہے سب کچھ واٹس ایپ پر ہوا۔ جسٹس مظاہر علی نقوی نے ریمارکس دیے کہ ایمرجنسی تو آئین میں شامل ہے۔ اپنے ریمارکس میں جسٹس مظاہر علی نقوی نے کہا کہ اگر ایسی صورتحال ہو جائے کہ حکومت ایمرجنسی لگا دے تو کیا اس حکومت کے خلاف بھی غداری کا مقدمہ چلے گا؟

جسٹس امیر بھٹی نے استفسار کیا کہ آرٹیکل 232 کے تحت ایمرجنسی لگائی جاسکتی ہے؟ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین کے تحت ایسا کیا جا سکتا ہے۔ اس پر جسٹس مظاہر علی نقوی نے استفسار کیا کہ تو پھر آئین سے انحراف کیسے ہو گیا؟ اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ 18ویں ترمیم میں آرٹیکل 6 میں معطلی، اعانت اور معطل رکھنے کے الفاظ شامل کیے گئے تھے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ کیا ترمیم کے بعد کسی ملزم کو ماضی سے جرم کی سزا دی جا سکتی ہے؟ جس پر وفاقی حکومت کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ نئی قانون سازی کے بعد جرم کی سزا ماضی سے نہیں دی جا سکتی۔

جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ نے 3 لفظ شامل کر کے پورے آئین کی حیئت کو بدل دیا۔

یاد رہے کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں موجود خصوصی عدالت کے 3 رکنی بینچ نے 17 دسمبر کو پرویز مشرف سنگین غداری کیس کے مختصر فیصلے میں سابق صدر کو آرٹیکل 6 کے تحت سزائے موت سنائی تھی۔

پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار سیٹھ، لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم اور سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس نذر اکبر پر مشتمل بینچ نے اس کیس کا فیصلہ 2 ایک کی اکثریت سے سنایا تھا۔ جس کے بعد 19 دسمبر کو اس کیس کا 167 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا تھا جس میں جسٹس نذر اکبر کا 44 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ بھی شامل تھا۔

بعدازاں 27 دسمبر کو سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے اپنے خلاف سنگین غداری کیس میں اسلام آباد کی خصوصی عدالت کا فیصلہ لاہور ہائی کورٹ میں متفرق درخواست کے ذریعے چیلنج کیا تھا۔
مزیدخبریں