یونس ملک نے سلطان راہی کی اُس خواہش کو دبانے کی کوشش کی، جو ان کے گوش گزار کی گئی تھی اور وہ تھی بھی بڑی دلچسپ۔ سلطان راہی کی آرزو تھی کہ وہ بھی ندیم، محمد علی یا پھر وحید مراد کی طرح کسی رومانی فلم میں کام کریں، جب ضرورت ہو جبھی مکوں کی برسات کرکے ولن کے ہوش ٹھکانے لگادیں۔ وہ بھی ہیروئن کا ہاتھ تھام کر زندگی بھر ساتھ نبھانے اور جینے مرنے کی قسمیں کھائیں۔ دل کو چھو لینے والے جذبات اور احساسات کا اظہار کریں۔ کسی کے پیار کی وادی میں کھو کر دنیا سے بے فکر ہوجائیں۔ مجنوں کی طرح نگری نگری گھومیں۔سوٹ بوٹ میں کسی دفتر یا فیکٹری میں ایمان دار افسر کا کردار نبھائیں، جو ظالم سیٹھ کے قہر سے بچنے کے لیے لاٹھی یا مکوں کے بجائے ٹھوس جملوں کا سہارہ لیں۔ انہی خیالات کووہ اس سے پہلے اقبال کاشمیری سے بھی کرچکے تھے، جنہوں نے سنی ان سنی کردی اور پھر یونس ملک کے سامنے سلطان راہی کی خواہش آئی تو انہوں نے دو ٹوک لفظوں میں بتا دیا کہ سلطان راہی کے ہاتھوں میں صرف گنڈاسا اور اسلحہ پکڑنا اچھا لگتا ہے، ہیروئن کا ہاتھ نہیں۔
جب تک پروڈیوسرز اور ہدایتکاروں نے سلطان راہی کے ہاتھوں میں ’گنڈاسا یا اسلحہ نہیں پکڑایا تھا، اُس وقت تک وہ کچھ ہلکے پھلکے کردار ادا کرچکے تھے لیکن پھر یہ کردار انہیں ملنا ہی بند ہوگئے۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ آٹھ سو سے زائد فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھانے والے سلطان راہی ان فلموں کے بیشتر گانوں میں بس اِدھر سے اُدھر کھسکتے رہے، کبھی بت بن کر جذبات اور احساسات سے عاری ہو کر ہیروئن کا ناز نخرے اٹھانے سے انکار ی۔ انجمن تو کبھی گوری، کبھی آسیہ تو کبھی صائمہ ان کے سامنے تتلیوں کی طرح منڈلاتی رہیں۔ فلموں کے درجن بھر ہی ایسے گانے ہوں گے جن میں سلطان راہی کے لیے پس پردہ گلوکار کی خدمات حاصل کی گئی ہو۔
سلطان راہی کے قریبی حلقوں کا کہنا تھا کہ وہ کسی رومانی فلموں میں کام کرنے کے لیے شدت سے بے چین رہتے۔ لیکن پروڈیوسرز کو یہ گوارہ نہیں تھا کہ ایک ایسا شخص جو دشمنوں کی فوج کو منٹوں میں دھول چٹا دیتا ہے، جس کی کلہاڑی کے وار سے ولن دوسری جہاں کا مہمان بن جائے ۔جو گھوڑے پر بیٹھ کر ہوا سے باتیں کرتا ہو منزل تک پہنچے یا وہ جو ماں کا دوپٹہ اور بہن کو ظالم اور سفاک دشمن کے چنگل سے نکال لاتا ہے۔ وہ اگر کسی فلم میں سیدھے سادھے رومانی کردار میں جلوہ افرو ز ہوگیا تو اسکرین پر جو ان کی دہشت اور خوف قائم ہے، وہ زائل ہوتی جائے گی۔
سلطان راہی دوستوں کی محفل میں اکثر دل میں مچلنے والی اس خواہش کو بیان کرتے کہ وہ کس طرح پروڈیوسرز کی خواہشات کو پورا کرتے کرتے، وہ اپنی خواہشات کا گلہ گھونٹتے جارہے ہیں۔ اب یہ المیہ ہی کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے جن اردو فلموں میں بھی اداکاری کے جوہر دکھائے، ان کو دیکھ کر ایسا ہی لگا کہ یہ بھی پنجابی فلموں کا ہی حصہ ہیں۔کئی رائٹرز کو انہوں نے یہ کھلی پیش کش کررکھی تھی کہ اگر وہ ان کے لیے متنوع کردار تخلیق کریں گے تو وہ ان فلموں کی خود ہی سرمایہ کاری کریں گے۔ اب یہ راہی صاحب کے اد ا کیے ہوئے مختلف کرداروں کا ہی اثر تھا کہ جب بھی کوئی رائٹر کوئی کہانی لکھتا تو وہ نا چاہتے ہوئے بھی اس میں ایکشن اور مار دھاڑ کا تڑکہ لگائے بغیر نہ رہتا۔
ایک جیسے یکسانیت زدہ کرداروں کے جنگل میں بھٹکتے سلطان راہی خود مختلف کردار ادا کرنے کے آرزو مند تھے لیکن کمرشل تقاضوں کے پیش نظر مجبور بھی۔ لیکن پھر خود ہی اس بات پر شکر بجا لاتے کہ سخت اور کرخت چہرے کے باوجود اللہ نے انہیں اتنی عزت اور دولت دی ہے، جو انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھی۔