خبر کے مطابق براڈ شیٹ کے مالک موسوی نے کوشش کی کہ اثاثہ جات ریکوری کے حوالے سے حکومت پاکستان کے ساتھ ایک ڈیل کی جائے۔ اس ڈیل کے لیے لندن سے ظفر کیو سی نامی وکیل لندن سے پاکستان گئے۔ اس سے قبل موسوی سے وہ ملے تو انہوں نے دعوی کیا کہ وہ وزیر اعظم عمران خان کی ہدایت پر ان سے ملنے آئے ہیں۔ اور یہ کہ ان کو شبہ ہے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کے ایک سنگاپور کے بینک میں 10 ارب ڈالر موجود ہیں، انکو کس طرح سے وطن واپس لایا جائے اور انہیں کیسے پکڑا جائے۔ یہی انکا مدعا ہے۔
https://www.youtube.com/watch?v=4nq1ObGOXTI
اس پر جب اسنے موسوی سے بات کی تو اسنے کہا کہ اگر وہ پاکستانی حکومت سے اسکی بات چیت کراسکے تو اسے کوئی اعتراض نہیں ہوگا اور اس حوالے سے کانٹریکٹ سائن کرنے میں بھی اسے کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ اس حوالے سے صحافی مرتضی' علی شاہ کا کہنا ہے کہ ظفر کیو سی سے گفتگو میں انہوں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ وہ پاکستان میں وزیر اعظم عمران خان، شہزاد اکبر اور اسد عمر سے ملے تھے۔ تاہم حکومتی موقف کے مطابق حکومت نے بہتر سمجھا کہ وہ ریاست سے ریاست کی بنیاد پر رابطہ کرے ساتھ ہی یہ کہ کئی لوگ بہت سے دعووں کے ساتھ حکومت کو ملے تھے اور معاہدہ کرنا چاہتے تھے لیکن حکومت نے ایسا نہ کیا۔
دستاویز جس میں وہ ٹیکسٹ میسجز شامل ہیں جن میں مبینہ طور پر ظفر علی کیو سی کی وزیر اعظم اور اعلی' حکام سے ملاقاتوں کا احوال درج ہے کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ ظفر علی کیو سی کی میٹنگ ہوئی اسکے علاوہ سینئر حکومتی حکام کے ساتھ میٹنگ ہوئی۔ جس میں انہوں نے دعوی' کیا کہ اگر انہیں یہ کانٹریکٹ ملے تو وہ بڑی کامیابیاں حاصل کر سکتے ہیں۔ دستاویز میں موجود ٹیسکٹ میسجز کی تفصیل وہ ہے جو کہ انہوں نے موساوی کو حکومتی عہدہداران سے ملاقاتوں سے قبل اور بعد میں کیئے۔ مرتضی' علی شاہ کے مطابق ان میں وہ میسجز بھی ہیں جو وزیر اعظم عمران خان، اسد عمر شہزاد اکبر اور اٹارنی جنرل کے ساتھ کیئے گئے ہیں جن کو دکھایا نہیں جا سکتا۔
ظفر کیو سی نے پاکستان جانے کے بعد صورتحال کے بارے میں موسوی کا بتایا اور ایک موقع پر یہ بھی انکشاف کیا کہ وزیر اعظم عمران خان نیب سے مایوس ہیں اور اسے ایک ایسا ادارہ سمجھتے ہیں جو کہ اثاثوں کا سراغ نہیں لگاتا۔
موسوی کے مطابق اس معاملے میں دلچسپ صورتحال 2019 جولائی مین بنی جب پاکستان کے اعلی' عہدایدار لندن آئے اور موسوی سے ملاقات میں 10 ارب ڈالر کے معاملے پر دوبارہ بات کی اور ثبوت مانگے۔ ساتھ ہی کہا کہ آپ کو اس پر 10 فیصد کمیشن ملے گا۔ جو کہ ہزاروں پاونڈ بنتا ہے۔ تاہم اس پاکستانی عہدہدار نے مزید کہا کہ موسوی یہ بتائیں کہ اگر ڈیل ہوتی ہے اور انکو یہ کمیشن ملتا ہے تو انکو(اس عہدیدار کو ) کتنا حصہ ملے گا؟
یہ بات دو عہدیداروں نے دو مختلف موقعوں پر یہ ڈیمانڈ کی۔ موسوی کے مطابق شہزاد اکبر بھی اس وفد کا حصہ تھے جو کہ اس بابت مذاکرات کرنے آیا تھا۔ تاہم شہزاد اکبر کا کہنا ہے کہ ان سے موسوی کی ملاقات ضرور ہوئی لیکن اس میں انہوں نے پاکستان کو ہونے والے عدالتی جرمانے میں ان سے رعایت کی بات کی۔ موسوی کے مطابق انہوں نے یہ تمام آفر ٹھکرا دی اور اپنے وکیل کے ذریعے حکومت کو کمیشن مانگنے والے عہدہداران کا نام بتا دیا۔ حکومت ان ناموں کوجانتی ہے تاہم اس حوالے سے ایک خاموشی ہے۔